باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 7 مارچ، 2024

درختوں کی زندگی (45) ۔ زندہ وجود


اگر ہم جانوروں اور انسانوں کے تعلق تاریخ دیکھیں تو بیسویں صدی کا دوسرا نصف اس حوالے سے بہت مثبت رہا ہے۔ جانوروں کے حقوق کی آگاہی اور ان کو بہتر بنانے میں بڑا کام ہوا ہے۔ مثلا، جرمنی میں 1990 میں قانون بنا کہ جانور کوئی “شے” نہیں، جیتے جاگتے “وجود” ہیں۔ ان کے ساتھ ناروا برتاوٗ نہیں رکھا جا سکتا۔
یہ قابلِ تعریف ترقی ہے کیونکہ ہم دریافت کر رہے ہیں کہ جانور بھی جذبات اور احساسات رکھتے ہیں۔ نہ صرف ممالیہ بلکہ ہر کوئی، پھلوں کی مکھیاں بھی۔ کیلے فورنیا میں محققین نے دریافت کیا ہے کہ شاید یہ مکھیاں خواب بھی دیکھتی ہوں۔
مکھیوں سے ہمدردی؟ یہ ہضم نہیں ہوتا۔ درختوں کے ساتھ ایسی ہمدردی رکھنا تو کہیں زیادہ مشکل ہے۔ بلکہ زیادہ تر لوگوں کے لئے یہ ماننا بھی مشکل ہے کہ درخت جیتے جاگتے وجود ہیں۔ نباتات کا دماغ نہیں۔ یہ آہستہ حرکت کرتے ہیں۔ ان کی زندگی، ان کی دلچسپیاں ہم سے مختلف ہیں۔ یہ اپنی روزمرہ زندگی بڑی آہستہ رفتار پر بسر کرتے ہیں۔ اس لئے یہ حیران کن نہں کہ اگرچہ سکول کا بچہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ درخت جاندار ہیں لیکن ان کو عام طور پر “شے” کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ درختوں اور جانوروں نے زندگی کی تاریخ میں ایک ہی جتنا سفر کیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ جانداروں کی وہ قسم ہیں جو اپنی خوراک خود تیار کرتے ہیں جبکہ جانور اس صلاحیت سے عاری ہیں اور ان کا انحصار درختوں کی محنت پر ہے۔
سردیوں میں جلتی لکڑی، ہاتھ میں پکڑی کتاب ،کسی درخت سے آئے تھے۔ اس کے لئے کسی قدآور درخت کو گرایا گیا تھا۔
اگر کوئی کہے کہ قتل کیا گیا تھا تو یہ غلط نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسا کرنا اخلاقی طور پر قبیح حرکت ہے۔ مرغی اور کباب میں جو تعلق ہے، وہی درخت اور کتاب کا۔ کباب کھانے کو کوئی غلط نہیں کہتا کیونکہ ظاہر ہے کہ ہم بھی اسی قدرت کا حصہ ہیں اور دوسری انواع سے حاصل کردہ نامیاتی مادوں کے بغیر خود زندہ نہں رہ سکتے۔ یہی قدرت کے چکر ہیں۔ لیکن بلاوجہ کسی جانور کو ستانے کو ہر کوئی ظلم ہی کہے گا۔ جس طرح ہمارا جانوروں سے رویہ ہے، ویسا ہی کچھ حق درختوں کا بھی ہے۔
اس کا مطلب یہ کہ درختوں سے فائدہ اٹھانا، ان سے لکڑی حاصل کرنا اپنی جگہ کئے جانے والا کام ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کو زندہ رہنے کا حق بھی دیا جا سکتا ہے۔ ان کو اپنی سماجی ضروریات پوری کرنے دی جا سکتی ہیں۔ ان کو اپنی اگلی نسلوں تک اپنا علم بانٹنے کرنے کا موقع دیا جا سکتا ہے اور ان کو وقار کے ساتھ بوڑھا ہونے اور مرنے کا موقع دیا جا سکتا ہے۔
کیونکہ درخت صرف ایک “شے” نہیں، جیتے جاگتے وجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درخت اس زمین اپنی زندگی اپنے طریقے سے گزار سکیں، اس کے لئے پانچ سے دس فیصد علاقہ مختص کیا جا سکتا ہے جو مکمل طور پر محفوظ کیا جائے۔ (کچھ ممالک میں ایسا کیا جا چکا ہے)۔ حال میں درختوں کے حوالے سے سوچ میں تبدیلی آنا شروع ہوئی ہے۔ سوئٹرلینڈ میں آئین اب یہ کہتا ہے۔ “جانور، پودوں اور دوسرے جانداروں کی حفاظت کی جائے گی۔ یہ ان کی تخلیق کے وقار کا ہم پر فرض ہے”۔
جنگل صرف لکڑیوں کی فیکٹریاں نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب جنگلوں کو ٹھیک طرح بڑھنے کا موقع ملے تو یہ محض لکڑیوں کی فراہمی سے زیادہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ کیا ہم نہیں چاہیں گے کہ ہماری اگلی نسلوں کو یہ موقع ملے کہ وہ ان درختوں کے سائے میں فطرت کا مشاہدہ کر سکیں؟ یہ ایکوسسٹم ہیں۔ دسیوں ہزاروں انواع سے بھری زندگی۔ ایک دوسرے سے منسلک۔ ایک دوسرے پر منحصر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ عالمی نیٹ ورک کس قدر اہم ہے، اس کیلئے جاپان سے ایک کہانی۔ کاٹسوہیکو ماٹسوناگا ایک میرین کیمسٹ ہیں انہیں نے دریافت کیا کہ درختوں سے جھڑنے والے پتے جو ندیوں اور دریاوٗں میں گرتے ہیں، یہ سمندر سے تیزابیت چوس لیتے ہیں جس کی وجہ سے پھر پلانکٹن کو بڑھنے کا موقع ملتا ہے جو غذائی زنجیر کا پہلا اور سب سے اہم بلڈنگ بلاک ہے۔ جاپان کے ساحلوں پر مچھلیوں کی بہتات اس وجہ سے ہے کہ اس کے جنگل صحت مند ہیں۔ اس کی وجہ سے جاپان سمندری خوراک کا بڑا برآمدکنندہ ہے۔ اور یہ مالیاتی کامیابی اس کے جنگلات کی صحت کی مرہون منت ہے۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جنگل کے بارے میں فکر کرنے کی وجہ صرف مادی فوائد نہیں۔ ہمیں اس کی پرواہ بھی ہونی چاہیے کہ یہ ہمیں حیران کن طریقے سے فطرت کے معمے دیکھنے کا موقع دیتے ہیں۔ ان کی چھاوٗں تلے بیٹھ کر روزانہ کے قصے ہوتے رہے ہیں۔ محبتیں پروان چڑھی ہیں۔ دلوں کو گرما دینے والی کہانیاں لکھی جاتی رہی ہیں۔ معاہدے کئے جاتے رہے ہیں۔ جنگوں کے فیصلے ہوتے رہے ہیں۔ یہاں پر دریافت کرنے کو نئے راز ہیں۔ کرنے کیلئے نئی مہم جوئی ہے۔ کیا معلوم، ایک دن ہم ان کی زبان بھی سمجھ لیں، جو ہماری نئی حیران کن کہانیوں کا حصہ بنیں۔
اس وقت تک، جب جنگل میں اگلی بار جانا ہو تو اپنے تصورات کو آزاد چھوڑ دیں۔ کئی بار حقیقت ان دلکش تصورات سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔
(ختم شد)




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں