باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 14 اپریل، 2024

ہوا (3) ۔ فضا کی پیدائش


ابتدائی زمین پر مادے کی تینوں حالتوں کا گڈمڈ تھا۔ یہ نوزائیدہ زمین آج کی زمین سے بالکل مختلف تھی۔ جب خلائی چٹانیں ملنا شروع ہوئیں تو گریویٹی کے پریشر نے ان سب کو مائع بنا دیا۔ کثیف مائع جیسا کہ پگھلا لوہا اس کے مرکز کی طرف چلے گئے۔ ہلکے سطح کی طرف آ گئے۔ سطح پر آنے کے بعد اس سرد خلا کے ملاپ کے بعد یہ سطحی مادے ٹھوس ہو گئے۔ یہ زمین ایک انڈے کی طرح تھی جس کے بیچ میں لوہے کی زردی، اس کے گرد ایک موٹی سی سیال تہہ اور ان کے اوپر پتلی سی ٹھوس سیاہ پتھر کا سخت چھلکا۔ لیکن یہ چھلکا ٹکڑے ٹکڑے تھا۔ کئی ملین ٹکڑے جن کے درمیان میں سے لاوا نکل رہا تھا۔
اس زمین پر رات کی تاریکی نہ آتی تھی۔ کیونکہ یہ اس لاوا کی نارنجی روشنی سے ہر وقت روشن تھی۔ اور پھر وقفے وقفے سے لاوے کا وہ اونچا فوارہ اچھلتا تھا۔ یہ کسی جہنم کا منظر تھا جس کی وجہ سے اس کو ہیڈین کے دور کا نام ملا۔ اس نوزائیدہ زمین کے گرد فضائی غلاف تھا۔ اسے فضا کا پہلا غلاف کہہ لیں جو ہائیڈروجن اور ہیلئم پر مشتمل تھا۔ یہ گیسوں کی وہ باقیات تھیں جو زمین اور مشتری کے بیچ پھنسی رہ گئی تھیں لیکن زمین ان کو سنبھال نہ سکی۔ سورج سے آنے والی شمسی ہواوٗں یعنی کہ برقی ذرات کے آگے یہ ٹھہر نہ سکا۔ شمسی طوفان اس کو ساتھ لے اڑے۔ زمین کی گریویٹی بھی ان مہین اور ہلکی گیسوں کو روکنے کیلئے کافی نہ تھی۔ ایک دوسرے سے ٹکراتے مالیکیول اسکیپ ولاسٹی حاصل کر لیتے اور جدا ہو جاتے تھے۔ چھوٹے مالییکیولز کے لئے فرار آسان ہے۔ ہر روز کچھ بھاگ جاتے۔
اب اس فضائی غلاف کا ایک اگلا مرحلہ شروع ہوا۔ یہ دوسرا غلاف تھا جس نے پہلے کی جگہ لے لی۔ یہ ہوا زمین سے نکلی تھی۔ جس طرح سیون اپ سے گیس نکلتی ہے۔ زمین کے لاوے میں گیسیں حل شدہ تھیں۔ جب زمین سے لاوا نکلتا تو ساتھ گیسیں بھی۔ ویسے جیسے بوتل کھولنے سے نکلتی ہیں۔ خیال یہ ہے کہ ان میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور بھاپ زیادہ تھی (ماہرینِ ارضیات کا اس پر اتفاق نہیں) لیکن ان کے علاوہ دوسری گیسیں بھی تھیں۔ یہ زمین کا “بڑا ڈکار” تھا۔ رفتہ رفتہ نکلنے والی اس گیس نے زمین کو مہربان جگہ نہیں بنایا۔ اگر ہم وہاں ہوتے تو یہ بھاپ ہماری جلد پر آبلے ڈال دیتی۔ نکلنے والی سلفر کی بدبو ناک کو بھسم کر دیتی۔ امونیا اور تیزاب پھیپھڑوں کو تار تار کر دیتے۔ روز اربوں ٹن نکلنے والی گیس کا پریشر آج کے فضائی پریشر کے مقابلے میں سو گنا زیادہ تھا۔ یہ پریشر کھوپڑی چٹخا دیتا۔ ہمیں پچکا دیتا اور اس قدر کثیف ہوا کا ہلکا سے جھونکا اس ابلتے لاوا کی تالاب میں لڑھکا دیتا۔
فضا کے اس دوسرے غلاف میں بڑا جزو بھاپ تھا۔ یہ بالآخر بارش کی صورت میں برسنے لگا اور زمین کے نشیبوں میں اکٹھا ہونے لگا۔ جھیلیں اور سمندر وجود میں آنے لگے۔ اور ان کے وجود میں آنے کے کئی دیگر اثرات تھے۔ اس وقت کی ہوا میں دوسرا بڑا عنصر کاربن ڈائی آکسائیڈ تھا۔سمندر اور جھیلوں نے اپنے ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بھی جذب کر لیا۔ یہ پانی میں فوری جذب ہو جاتی ہے اور یہاں پر معدنیات میں حل ہو کر ٹھوس مادے بنا دیے۔ ساتھ ہی ساتھ زمین پر شہابیوں کے بمباری جاری تھی۔ تصادم کچھ ہوا کو خلا میں نکال دیتے۔ ہر تصادم تباہی نہیں تھا۔ چھوٹے شہابیے اپنے ساتھ نیا مادہ اور گیسیں لے کر آتے جس میں آبی بخارات بھی ہوتے۔ ہر گرنے والا شہابیہ موٹے فضائی غلاف سے گزرتے اس ہوا کو گرم کر دیتا۔ اضافی حرکی توانائی والے مالیکیول کے لئے نکلنا آسان ہو جاتا۔ تصادم سے ہونے والی حرکی توانائی بڑی شاک ویو پیدا کرتی تھی جو ہوا کو مزید باہر کی طرف دھکیل دیتی تھی۔ کئی ماہرینِ ارضیات ایسا سمجھتے ہیں کہ اس دور میں فضا کا غلاف کئی بار ختم ہوا۔ دوسری طرف زمین سے نکلتی نئی گیس بھی تھی۔ شہابیوں کے تصادم اسے بھی نکال دیتے تھے۔ گیسوں کا مکسچر ویسا ہی رہتا تھا لیکن فضائی غلاف کم اور زیادہ ہونے کی منازل طے کرتا رہا۔

(جاری ہے)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں