باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 26 جون، 2024

پرچم (33) ۔ انڈیا اور نیپال


زعفران، سفید اور سبز پٹیوں کے بیچ میں نیلے رنگ کا پہیہ۔ یہ انڈیا کا جھنڈا ہے۔ درمیان میں بنا چوبیس لکیروں والا پہیہ اشوک چکر ہے۔ یہ تیسری صدی قبل مسیح کے عظیم بادشاہ اشوکا کا نشان تھا۔
اس کو 22 جولائی 1947 کو قومی پرچم قرار دیا گیا تھا۔ گاندھی کا اس پر کہنا تھا کہ
“جھنڈا ہر قوم کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کسی منزل کی نمائندگی کرتا ہے۔ جب یونین جیک لہرایا جاتا ہے تو انگریزوں کے سینوں میں جو جذبات پیدا ہوتے ہیں، اس کی پیمائش نہیں کی جا سکتی۔ دھاریوں اور تاروں والا جھنڈا امریکیوں کو عزیز ہے۔ ستارہ و ہلال تلے مسلمان شجاعت کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ انڈیا میں مسلمان کرسچن، یہودی، پارسی سمیت ہر انڈین کو اپنے گھر کے لئے ایک مشترک پہچان چاہیے جو اس کی زندگی میں معنی رکھتا ہو اور جس کے لئے وہ وقت پڑنے پر جان دینے کو بھی تیار ہو”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈیا کے جھنڈے کے بارے میں بحث پرانی تھی۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی میں 1921 میں ایک نوجوان نے انڈین جھنڈا تجویز کیا تھا جس میں دو پٹیاں تھیں۔ سبز اور سرخ۔ یہ مسلمان اور ہندو آبادی کے لئے تھیں۔ گاندھی کو یہ پسند آیا تھا لیکن انہوں نے سفید پٹی کا اضافہ کروایا کہ یہ باقی مذاہب کے لئے ہو۔ اس کے ساتھ درمیان میں چرخے کا بھی اضافہ کروایا۔ یہ برصغیر کی خودکفالت کی علامت تھا۔ ان کا آئیڈیا تھا کہ ہندوستانی چرخہ چلا کر اپنا کپڑا خود بنائیں تا کہ برطانیہ سے آنے والا کپڑا نہ خریدا جائے (جو کہ ہندوستانی کپاس سے بنتا تھا)۔
1931 میں اس کی سرخ پٹی کو زعفرانی کر دیا گیا تھا اور اب یہ بتایا گیا کہ رنگوں کا مذاہب کی نمائندگی سے تعلق نہیں بلکہ بہادری اور قربانی، سچ اور امن، یقین اور بے خوفی کے ساتھ ہے۔ گاندھی کا چرخہ برقرار رہا۔
لیکن جب قومی جھنڈا بنانے کا وقت آیا تو رنگ برقرار رکھے گئے جبکہ چرخے کی جگہ دھرما چکرا نے لے لی۔
ہندو، جین، سکھ اور بدھ دھرما کے تصور سے واقف ہیں جبکہ اس کو آگے کی طرف سفر اور ترقی کی علامت بھی کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرکاری طور پر جھنڈے کو صرف ایک ہی قسم کے کپڑے سے بنایا جا سکتا ہے جو کہ ہاتھ سے بنا گیا کھادی کا کپڑا ہے جو کہ گاندھی کا پسندیدہ تھا۔ جھنڈے کی بے حرمتی پر تین سال تک کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
برٹش سول سروس نے ہندوستان کے لئے قانون بنایا تھا کہ جھنڈے کو صرف سرکاری عمارتوں اور گاڑیوں پر لگایا جا سکتا ہے۔ انڈیا میں یہ قانون 2002 تک رہا۔
ایک روز، 2001 میں نوین جندال نامی صنعتکار کو ایک خیال سوجھا۔ وہ امریکہ سے پڑھ کر آئے تھے اور انہیں وہاں سے مستعار لیا گیا ایک خیال سوجھا۔ نوین نے اپنے دفتر کی عمارت پر انڈیا کا جھنڈا لگا دیا۔  پولیس آئی، جھنڈا اتار کر ضبط کیا اور ان پر مقدمہ ڈال دیا۔ جندال نے اس پر دہلی کی ہائیکورٹ میں کیس دائر کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ یہ قانون ایک شہری کو ملک کے لئے محبت کے اظہار پر پابندی لگاتا ہے۔ کیس سپریم کورٹ تک گیا۔ سپریم کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دیا اور حکومت کو ہدایت کی کہ اس قانون پر نظرثانی پر غور کیا جائے۔ 2002 میں قانون میں ترمیم ہوئی اور اب انڈیا میں کسی بھی دن کوئی بھی شخص قومی پرچم لہرا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈیا کو محمد علی جناح نے “قومیتوں کا برصغیر” کہا تھا جو کہ درست ہے۔ متنوع قومیتوں کی وجہ سے اسے اپنی تاریخ میں علیحدگی پسند تحریکوں کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ نسلی، مذہبی اور سیاسی لحاظ سے یہ پیچیدہ ملک ہے جو اس وقت عالمی سٹیج پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ اور اگر اس کا پہیہ ترقی کی علامت ہے تو یقینی طور پر یہ پہیہ اس وقت حرکت میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈیا سے ہمالیہ پار کرتے ہوئے چین ہے جبکہ یہاں پر دنیا کا واحد ملک ہے جس کا قومی جھنڈا مستطیل یا چوکور نہیں۔
نیپال کا جھنڈا اوپر تلے قرمزی رنگ کی دو مثلثوں پر مشتمل ہے جن کے گرد گہرا نیلا بارڈر ہے۔ یہ مثلث کوہ ہمالیہ کو ظاہر کرتی ہیں اور ملک کے دو مذاہب، ہندو اور بدھ مت کو۔ اوپر والی مثلث میں سفید ہلال  ہے جس کے اوپر نصف سورج ہے۔ جبکہ نچلی مثلث میں بارہ کرنوں والا سورج۔ یہ شاہی خاندان اور وزیراعظم کو ظاہر کرتی تھیں۔
ملک کے آخری بادشاہ اور ملکہ کو آٹھ لوگوں سمیت 2001 میں ولی عہد نے گولی مار دی تھی اور مبینہ طور پر خود کو بھی۔ اس پر بہت مختصر تفتیش کے بعد فٹا فٹ بادشاہ کے بھائی نے تخت سنبھال لیا تھا۔ وہ اتنے غیرمقبول تھے کہ ماؤاسٹ بغاوت اٹھ کھڑی ہوئی اور ملک سے بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔ نیپال سیکولر جمہوریت بن گیا۔  
جھنڈے پر شاہی خاندان کی علامات برقرار رہیں لیکن معنی بدل لئے گئے۔  لیکن اب نیپال سیکولر جمہوریت ہے تو مطلب بدل لیا گیا ہے۔ اب کہا جاتا ہے کہ یہ ملک کی امید کا نشان ہیں اور دکھاتے ہیں کہ جب تک سورج چاند رہیں گے، نیپال قائم و دائم رہے گا۔
(جاری ہے)




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں