چن شی ہوانگ 221 قبل مسیح میں سات متحارب ریاستوں کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
چین میں یہ بات معیوب سمجھی جاتی ہے کہ کوئی اپنے مسائل کا ذکر باہر والوں سے کرے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ چین کے اندر مسائل یا تقسیم نہیں۔ چین 23 صوبوں، چار میونسپلٹی، دو مخصوص اور پانچ نیم خودمختار علاقوں پر مشتمل ہے۔ شمال مشرق میں مینچوریا پر اب ہان کا مکمل غلبہ ہے لیکن سنکیانگ، اندرونی منگولیا اور تبت کے علاقوں میں منفرد شناخت، زبان، روایات ہیں۔ سنکیانگ اور تبت میں اپنے مذاہب (اسلام اور بدھ مت) بھی ہیں اور علیحدگی پسند تحریکیں بھی۔
چین سنکیانگ میں ایغور کو صدیوں سے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن یہاں کی آبادی نے چین کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں تحریکوں کے سلسلے رہے۔ اور 1930 کی دہائی میں مختصر وقت کے لئے مشرقی ترکستان کی ریاست بھی قائم ہوئی۔ سنکیانگ رقبے کے لحاظ سے چین کا چھٹا حصہ ہے۔ یہ رقبہ پاکستان سے دگنا ہے لیکن آبادی چین کا محض دو فیصد سے بھی کم ہے۔
سنکیانگ کو چین کا حصہ باقاعدہ طور پر 1949 میں بنا۔ اس کے بعد ہان یہاں پر آ کر بڑی تعداد میں بسنے لگے۔ چند برسوں میں ہان یہاں کی آبادی کا نصف ہو جائیں گے۔ اور ایغور میں اس پر تشویش رہی ہے۔ ایغور آبادی کی شکایت ہے کہ انہیں اچھی ملازمتوں کا حقدار تسلیم نہیں کیا جاتا، تعمیراتی اداروں کی طرف سے مسلح جتھے انہیں نشانہ بناتے ہیں جس میں حکومت کی پشت پناہی ہوتی ہے۔ کبھی کبھار نسلی فسادات بھی ہو جاتے ہیں۔
سن 2017 کی بہار میں ایغور اور ہان کے درمیان یہ شدت اختیار کر گئے۔ بھاری تعداد میں فوج طلب کر لی گئی۔ مقامی کمیونسٹ پارٹی کی تجویز تھی کہ لاشوں کا سمندر بنا دیا جائے۔ احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلا دینے جیسی تجاویز بھی سامنے آئیں لیکن چینی صدر کچھ محتاط تھے۔ بہرحال، بیجنگ کا اس علاقے پر آہنی تسلط قائم ہے۔
تبت کے ساتھ بھی ایسا ہی ماجرا ہے۔ ہمالیہ کے پہاڑ انڈیا کے ساتھ رکاوٹ کا کام کرتے ہیں۔ تبت کے تین صوبے ہیں اور ان کا کل رقبہ فرانس سے چار گنا ہے۔ تبت کا نیم خودمختار علاقہ (Tibet Autonomous Region) ان میں سے ایک ہے۔ چین نے 1950 میں تبت کی فوج کو شکست دے کر اسے قائم کیا تھا۔
ایغور کی مسلمان آبادی کی طرح تبت کی بدھ آبادی میں اپنی شناخت کا ایک مضبوط احساس موجود ہے جو کہ ہان سے جدا ہے۔ لیکن دونوں علاقوں میں اس بات کا امکان نہیں رہا کہ انہیں خودمختاری مل سکے۔ اب تبت کی آبادی کا نصف ہان پر مشتمل ہے۔ علاقے میں ساٹھ لاکھ تبتی اور اتنے ہی ہان آباد ہیں۔ دیہی علاقوں میں مقامی آبادی کی اکثریت ہے۔
ریاس کا خیال ہے کہ نسلی تفریق کا مسئلہ یہ سنبھال سکتی ہے۔ اور اسے بہت سنجیدہ لیا جاتا ہے۔ چین نے تاریخ سے یہ سیکھا ہے کہ منتقسم آبادی کے اختلافات ریاست کو کمزور کر دیتے ہیں۔
انیسویں صدی میں چین میں تجارت کے طریقے تبدیل ہو گئے۔ اس وقت تک زمین کے راستے وسطی ایشیا کے تجارتی راستے اہم تھے لیکن پھر سمندری راستے ترجیح بن گئے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ برطانیہ اور دوسری طاقتیں سمندر کے راستے وارد ہوئی تھیں اور ساتھ عسکری طاقت لے کر آئی تھیں تا کہ چین سے اپنی مرضی کی شرائط پر تجارت کی جا سکے۔ تجارت کا راستہ مشرقی ساحلی علاقہ بن گیا۔ یہ ان علاقوں میں بسنے والوں کے لئے تو خوشحالی کا سبب بنا لیکن اندرونی تجارت کمزور پڑ گئی۔ یہاں انفراسٹرکچر پر خرچ کم ہو گیا۔ کسان غریب تر ہو گئے۔ باہر سے آنے والے طاقتور ہونے لگے۔ اور یہ ریاست کی تقسیم کی ایک وجہ تھی۔ ریاست میں ایسی تقسیم ہو جائے تو مرکز سے اسے کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کمزور چین باہر سے آنے والوں کے آگے بے بس ہو گیا۔ اس کے بعد خانہ جنگی کا وقت آیا اور پھر پرانے دشمن کے ہاتھوں شکست کا۔ جب جاپان نے اس پر 1931 میں قبضہ کرنا شروع کر دیا۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد کمیونسٹ خانہ جنگی میں جیت چکے تھے۔ انہیں ملک کو اکٹھا کرنا تھا۔ بیرونی طاقتوں کو باہر نکال دیا گیا۔ علاقوں کے بڑے شہروں میں پارٹی نے تسلط قائم کر لیا۔ ماؤ کے کنٹرول میں چین نے کسی بھی اختلاف کو آہنی ہاتھوں سے کچلا۔ طاقت پر کمیونسٹ پارٹی کا شکنجہ مضبوط ہوا جس کا مرکز بیجنگ تھا۔ 1949 میں یہ دارالحکومت قرار پایا تھا۔
کئی تجارتی روابط کاٹ دیے گئے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ساحلی شہروں میں بھی معیارِ زندگی گر گیا۔ (ایک طریقے سے اس نے مساوات حاصل کرنے میں مدد کی)۔ ماؤ کی دہائیوں میں عوام میں غربت رہی جبکہ مرکز کا کنٹرول طاقتور ہوا۔ خاص طور پر وہ علاقے جہاں ہان اکثریت میں نہیں تھے، وہاں پر تسلط مضبوط ہوا۔
ماؤ نے ملک کو متحد تو کیا لیکن اس کی قیمت ملک میں معاشی ترقی نہ ہونے کی صورت میں ادا کرنے پڑی۔ اس خطے میں ان کے ہمسائے تیزی سے ترقی کر رہے تھے۔ جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور اور دیگر ممالک میں ترقی کی رفتار چین سے بہت تیز تھی۔ عسکری طور پر بھی چین کمزور تھا۔ اگر یہ جاری رہتا تو چین زیادہ مشکلات کا شکار ہو جاتا۔
ماؤ کے بعد آنے والے ڈینگ شاؤ پینگ نے اس کو تبدیل کیا۔ اس کے لئے ملک کی معیشت کو دوسرے ممالک کے لئے کھولا گیا۔ تجارت کو فروغ ملا۔ مشرق میں ساحلی علاقوں میں ترقی واپس لوٹ آئی۔ اندرونِ ملک سے معیار زندگی کا بڑھتا فرق پچھلی صدیوں کے تنازعات واپس لا سکتا تھا۔ چین نے اپنی شرط تیزرفتار معاشی ترقی پر لگائی ہے۔
چین کی شرط اس پر ہے کہ اس کی معیشت تیزی سے بڑھتی رہے گی۔ یہ دنیا کے لئے فیکٹری کا کردار ادا کرتا رہے گا۔ دنیا اس سے چیزیں خریدتی رہے گی۔ آبادی غربت سے باہر نکلتی رہے گا۔ اور چین اس میں غفلت نہیں برت سکتا۔
Post Top Ad
Your Ad Spot
جمعہ، 6 دسمبر، 2024
Tags
Divided#
Share This
About Wahara Umbakar
Divided
لیبلز:
Divided
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں