چین میں امیر اور غریب کا فرق دنیا میں بلند ترین میں سے ہے۔ دیہی اور شہری علاقوں میں فرق زیادہ ہے۔ شہری مزدور کی آمدنی دیہی مزدور سے تین گنا ہے۔ دولت کی غیرمساوی تقسیم ہر ملک میں ہے لیکن پیکنگ یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق چین میں نہ صرف یہ باقی دنیا سے زیادہ ہے اور بڑھ رہا ہے۔
حکومت اس مسئلے سے بھی آگاہ ہے اور اس کے خطرات سے بھی کیونکہ یہ معاشرے میں عدم استحکام کا سبب بن سکتا ہے۔
چین کے اندر اس سے بڑی تفریق عمر کی ہے۔ پرانی نسل ماؤ اور “مساوات” کے دنوں کی طرف دیکھتی ہے۔ جبکہ نئی نسل صارف کلچر کی زیادہ شیدائی نظر آتی ہے۔ نئی نسل میں تعلیم اور دنیا سے آگاہی بھی زیادہ ہے۔
ایک اور مسئلہ شہری اور دیہی آبادی کی تفریق کا ہے۔ نوجوان لوگ دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ اور اس میں مرد زیادہ ہیں جو کہ اپنی فیملی کو پیچھے چھوڑ کر آتے ہیں۔ اس وقت لگ بھگ نوے کروڑ چینی دیہی جبکہ پچاس کروڑ چینی شہری علاقوں میں رہتے ہیں۔ اور آنے والی یہ تبدیلی تیزرفتار ہے۔ توقع ہے کہ اس دہائی کے آخر تک یہ تعداد برابر ہو جائے گی یعنی پچیس کروڑ افراد دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کر چکے ہوں گے۔ ایک اور نقل مکانی مغرب سے مشرق کی طرف ہے جہاں چین کے زیادہ ترقی یافتہ علاقے ہیں۔
یہ نقل مکانی شہروں کے اندر امیر اور غریب کی تقسیم کو مزید بڑھاوا دیتی ہے، جس کی وجہ ہوکو کا نظام ہے۔
ہوکو کا نظام قدیم ہے۔ دیوارِ چین سے بھی قدیم۔ آج سے چار ہزار سال قبل شیا خاندان کی حکومت نے تمام خاندانوں کو رجسٹر کرنے کا نظام بنایا تھا۔ 1953 میں کمیونسٹ پارٹی نے اسی سسٹم کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو دیہاتی اور شہری میں تقسیم کیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ دیہات میں رہنے والے شہروں کی طرف کا رخ نہ کریں جو کہ اس نقل مکانی کا بوجھ نہ سہار سکتے۔
یہ نظام ابھی بھی موجود ہے۔ ہر شخص کو ریاست کے ساتھ رجسٹر ہونا ہے۔ ایسا کیا جانے تو کئی ممالک میں معمول ہے لیکن چین میں آپ جہاں پر رجسٹر ہوں، وہ آپ کی زندگی پر بہت اثرانداز ہوتا ہے۔
فرض کیجئے کہ آپ کا خاندان غیرزرعی شنگھائی میں رجسٹر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ شہر کی صحت اور تعلیم کی سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اور یہاں پر ایک طالب علم کی فنڈنگ گوئیژو صوبے کے مقابلے میں پندرہ گنا زیادہ ہے۔ اور اگر یہاں سے ایک ہزار میل مغرب میں کسان کے طور پر رجسٹر ہیں تو دستیاب سماجی سہولیات محدود ہوں گی۔ اور زراعت کے سوا کچھ اور کرنا مشکل ہو گا۔
اب آپ شنگھائی مزدوری کرنے جاتے ہیں۔ آپ کی آمدن بڑھ جائے گی اور آپ اپنے گھر کچھ پیسے بھجوا سکیں گے۔ لیکن آپ کی رجسٹریشن “دیہی کسان” کے طور پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شنگھائی کی صحت اور سماجی سہولیات آپ کو نہیں ملیں گی۔ اور اگر آپ شادی کرتے ہیں تو آپ کا بچہ بھی شنگھائی میں نہیں پڑھ سکے گا۔
اس وجہ سے چین میں نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کا ایک طبقہ بن چکا ہے جو کہ سماجی سہولیات سے مستفید نہیں ہو سکتے۔ یہ خود کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں۔
حکومت کے لئے اس مسئلے سے نمٹنا آسان نہیں ہے۔ اس کے پاس ایک طریقہ تو یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں سہولیات کے لئے خرچ زیادہ کر کے ان کا معیار زندگی شہری علاقوں کے برابر لایا جائے لیکن اس کے لئے بہت زیادہ فنڈ درکار ہیں۔ دوسرا یہ کہ اگر ایسا کرنے سے شہروں میں رہنے والے “دوسرے درجے کے شہری” واپس دیہات کی طرف چلے گئے تو چین کا معاشی معجزہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا کیونکہ شہر میں سستے مزدور عنقا ہو جائیں گے۔
چین کا نازک توازن برقرار رکھنا ہے۔ مناسب تعداد میں لوگ شہروں کی طرف آتے بھی رہیں اور ساتھ ہی ساتھ دیہی علاقوں میں معیار زندگی بلند کرنے کی طرف توجہ بھی دی جائے۔ یہ اس توازن میں ہو کہ سماجی استحکام بھی رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں