چین ایک بڑا ملک ہے۔ 1.4 ارب کی آبادی اور امریکہ جتنا رقبہ۔ جغرافیائی لحاظ سے یہ پانچ ٹائم زون پر پھیلا ہے۔ لیکن ملک میں سرکاری وقت ایک ہی ہے۔ مرکزی حکمرانی چین کا خاصہ رہی ہے۔ ہمالیہ سے بحیرہ جاپان اور گوبی کے صحرا سے بحیرہ جنوبی چین تک پھیلا ملک دنیا کی معاشی طاقت ہے۔
اگر آپ بیجنگ ائرپورٹ سے دیوارِ چین کی طرف سفر کریں تو باہر سے آنے والے کے لئے آبادی کے اندر فرق ڈھونڈا پہلے تو مشکل ہوتا ہے لیکن کچھ غور کرنے پر یہ آسان ہوتا جاتا ہے۔
شہر کے مراکز میں اونچی عمارات اور روشنوں سے مضافات کے سفر میں میلوں تک اونچے رہائشی فلیٹ کے قطاریں ہیں جو مڈل کلاس کی رہائش گاہیں ہیں۔ ان سے آگے فیکٹریاں اور صنعتی مزدور ہیں۔ دیہی علاقوں سے یہاں کے رہنے والے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ چھوٹے شہروں اور آبادیوں میں روشنیاں کم ہو جاتی ہیں۔ باہر سے آنے والے کے لئے یہ کنکریٹ کی بے رنگ بستیاں ہیں۔ یہ چین کی بڑی تقسیم ہے۔ دیہات اور شہر، امیر اور غریب۔ چین کے استحکام کا انحصار اس پر ہے کہ ان کے درمیان فرق خلیج نہ بن جائے اور آبادی پر مرکز کی گرفت ڈھیلی نہ پڑ جائے۔
چین کی کامیابی کے لئے اتحاد بہت اہم رہا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ اس کا بڑا چیلنج بھی۔ ماضی میں اس کے لئے ایک مادی اور علامتی کردار ادا کرنے میں اہم کردار چین کی عظیم دیوار کا تھا۔
بیجنگ سے آٹھ لین والی بڑی ایکسپریس وے پر آپ جب دیوار کے متینو والے حصے کے قریب پہنچتے ہیں تو یہ سادہ دو رویہ سڑک بن جاتی ہے۔ عمارتیں کم ہو جاتی ہیں اور سبزے والے میدان نظر آنے لگتے ہیں۔ دیوار سے چند میل دور گاڑی کو پارک کر دیا جاتا ہے اور یہاں پر آپ ایک بس لے کر سڑک کے آخر تک پہنچتے ہیں۔ اس سے کیبل کار لی جا سکتی ہے یا دو میل کی چڑھائی پیدل کی جا سکتی ہے جہاں پر ہو سکتا ہے کہ بکریاں آپ کے ہمراہ ہو جائیں اور پھر آخر میں آپ کو وہ نظر آئے گا جسے آپ دیکھنے آئے ہیں۔ یہ پہاڑ کے اوپر بل کھاتے اینٹوں کی عظیم دیوار کا نظارہ ہے۔
نہ ہی یہ برج خلیفہ کی طرح متاثر کرتا ہے، نہ ہی گرینڈ کاننین(عظیم کھائی) کی طرح شاندار ہے اور نہ ہی دیوار برلن کی طرح سیاست کی عکاسی کرتی ہے، لیکن اس سے چین کو تاریخ کی مدد سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
دیوار ایک سادہ نظریے پر تعمیر ہوئی تھی۔ اس کی ایک طرف تہذیب ہے اور دوسری جانب بربریت۔
دیوار کے جنوب میں چین کا دل ہے جہاں پر ہان آبادی ہے۔ اس کے شمال میں پہاڑوں سے بہت پرے منگول صحرا اور میدان ہیں۔ اس کے دائیں طرف مینچوریا اور بائیں طرف سنکیانگ کا علاقہ ہے۔
ڈھائی ہزار سال قبل شمال کے پہاڑ ہان کو دفاعی حصار دیتے تھے۔ ہان نے زرخیز میدانوں پر آبادیاں بنائی تھیں اور تہذیب بسائی تھی۔ لیکن اس کی تین اطراف سے حملہ آور جتھے اور کبھی افواج آ جاتی تھیں۔ پہاڑی دروں سے گزر کر شہری علاقوں پر حملے ہوتے تھے۔ صدیوں میں چینیوں میں “ہم بمقابلہ وہ” کا تصور راسخ ہوا۔
چینی تاریخ کے ماہر فئیربینک دیوارِ چین کو وہ سرحد کہتے ہیں جو کہ خانہ بدوشوں اور کسانوں کے درمیان قائم کی گئی تھی۔ ایک طرف میدان تھے اور دوسری طرف کھیت۔ اور یہ ہان کے اس یقین کا اظہار تھا جس کے مطابق چین دنیا کی ثقافت اور ترقی کا مرکز تھا۔ ہان کا یہ بھی یقین تھا کہ چینی بادشاہ دنیا کے وہ واحد حکمران ہیں جنہیں بادشاہی کا اختیار آسمان سے سونپا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی تھا کہ باقی دنیا کے حکمران کمتر تھے۔ ہمسائیوں کو اپنے زیرِ نگین کرنا ضروری تھا۔ مقامی راہنما برقرار اس وقت رہ سکتے تھے اگر وہ چینی بادشاہ کے آگے سرِتسلیم خم کریں۔ دور دراز کے علاقے ۔۔ جیسا کہ سنکیانگ، جاپان، جاوا وغیرہ بھی کمتر ریاستیں تھیں جنہیں چینی بادشاہ کو خراج ادا کرنا تھا۔ دنیا کے بارے میں یہ نظریہ طویل مدت تک موثر اور کارگر رہا۔
دیوار چین صدیوں تک چین کے قومی سلامتی میں کردار ادا کرتی رہی۔ اس کے مغرب اور شمال میں زرعی اراضی محفوظ رہی۔ دیوار مغرب کی طرف پھیلتی گئی۔ یہ شاہراہِ ریشم کی بھی حفاظت کرتی تھی۔ اس کے متوازی دیواریں بنیں۔ تمام دیواریں ملا کر کل ملا کر یہ نظام تیرہ ہزار میل کی تعمیر پر مشتمل تھا۔ (موازنے کے لئے: گلگت سے کراچی کا فاصلہ اسکے دسویں حصے سے کم ہے)۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی یکجہتی میں اس کا مادی کردار ماند پڑتا گیا لیکن یہ قومی شعور میں اہم علامت رہی۔
کمیونسٹ انقلاب کے بعد حکومت کا دیوار کے بارے میں رویہ ملا جلا رہا۔ کچھ اسے ملک کے فیوڈل ماضی کے علامت سمجھتے تھے لیکن مجموعی طور پر اسے نظرانداز کیا گیا۔ جب “ثقافتی انقلاب” آیا تو اس کا نعرہ “پرانی روایات، پرانی ثقافت، پرانی عادات اور پرانے خیالات” کو مسترد کر دینے کا تھا۔ دیوار بھی اس کا نشانہ بنی اور پرجوش لوگوں کی طرف سے کئی مقامات پر اسے تباہ کیا گیا۔
ماؤ 1976 میں فوت ہوئے اور ان کے ساتھ ہی ثقافتی انقلاب بھی۔ آنے والے راہنما ڈینگ ژاؤپنگ نے اس کی تعمیر و تزئین نو کا کام شروع کیا۔ ان کی ایک نظر سیاحت اور قومی تشخص پر تھی۔ دیوار کو نقصان پہنچانا یا اس پر لکھنا جرم قرار پایا۔
تاریخ میں عسکری لحاظ سے دیوار اپنے مقصد میں جزوی طور پر کامیاب رہی لیکن ہان کو بیرونی دنیا سے الگ شناخت دینے میں بہت کامیاب رہی۔ آج یہ ایک عظیم اور قدیم ثقافت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں