جب ہم بات چیت کرتے ہیں تو ہم ایک دوسرے کو نام سے مخاطب کرتے ہیں۔ کسی شخص کی شناخت اس کا ایک ذاتی نام ہوتا ہے جسے ہم اس شخص کی توجہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ چاہے ہم ای میل، آن لائن ایپ، یا فون استعمال کر رہے ہوں، یا پھر آمنے سامنے بات چیت کر رہے ہوں، اس کے بغیر یہ مشکل ہو گا۔ جب ہم کسی ایسے شخص سے ملتے ہیں جس سے ہمارا پہلے تعارف ہو چکا ہوتا ہے اور ہم اس کا نام بھول جاتے ہیں تو ہمیں اس کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ کیا نام رکھنا خاص طور پر انسانی عادت ہے یا جانوروں کی دنیا میں بھی اس سے ملتی جلتی کوئی چیز ہے؟ آخرکار، تمام سماجی مخلوقات کو اس مسئلے کا سامنا ہے۔
ممالیہ میں ماں اور بچے کے درمیان نام رکھنے کی سادہ شکل موجود ہے۔ ماں اپنی عام آواز کا استعمال کرتے ہوئے ایک آواز نکالتی ہے۔ بچہ آواز کو پہچانتا ہے اور اپنی آواز سے جواب دیتا ہے۔ لیکن کیا یہ واقعی ناموں کا تبادلہ ہے یا یہ محض آواز کی شناخت ہے؟ مؤخر الذکر تشریح کے حق میں دلیل یہ ہے کہ ماں اور بچے کے یہ خاص "نام" وقت کے ساتھ دھندلے پڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک بار جب نوجوان جانور بڑے ہو جاتے ہی تو ان کی ماں ان پر مزید ردعمل ظاہر نہیں کرتی ہے۔ کیا عارضی طور پر بامعنی آواز کو نام کہا جانا چاہیے؟
اگر ہم ایسی آوازوں کو چھوڑ دیں، تو سائنس نے جانوروں کی دنیا میں حقیقی ذاتی نام رکھنے کی کچھ مثالیں دریافت کی ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ یہ نام رکھنے کا معاملہ کوّوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کے قریبی سماجی بندھن اس کے لئے ایک مثالی پس منظر فراہم کرتے ہیں، کیونکہ کوّے نہ صرف والدین اور بچوں کے درمیان، بلکہ دوستوں کے درمیان بھی زندگی بھر کے تعلقات استوار کرتے ہیں۔ اگر آپ دور سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں اور یہ شناخت کرنا چاہتے ہیں کہ کون سا فرد بات کر رہا ہے تو نام رکھنے والی آوازیں بہترین طریقہ ہیں۔ یہ سیاہ پرندے 80 سے زیادہ مختلف آوازوں پر عبور حاصل کر سکتے ہیں جو کہ کوّوں کی لغت ہے۔ ان میں ذاتی شناختی آواز بھی شامل ہے جو ایک کوّا دوسرے کوّوں کو اپنی موجودگی کا اعلان کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ لیکن کیا یہ آواز واقعی ایک نام ہے؟ یہ اس صورت میں درست ہوگا کہ اگر دوسرے کوّے بھی اس کی ذاتی شناختی آواز کا استعمال کرتے ہوئے بولنے والے کو "مخاطب" کریں—اور کوّے بالکل ایسا ہی کرتے ہیں۔ وہ دوسرے کوّوں کے نام سالوں تک یاد رکھتے ہیں، چاہے ان کا کوئی رابطہ نہ بھی ہوا ہو۔ اگر کوئی واقف کار واپس نمودار ہوتا ہے اور دور سے اپنا نام پکارتا ہے، تو دو ممکنہ ردعمل ہوتے ہیں۔ اگر واپس آنے والا کوّا سابقہ دوست ہے، تو دوسرے کوّے اونچی دوستانہ آوازوں میں جواب دیتے ہیں۔ لیکن اگر یہ ناپسندیدہ ہے تو یہ نیچی اور روکھی آواز ہوتی ہے۔
ریڈرک لوفلر انسٹی ٹیوٹ جانوروں پر تحقیق کے لیے جرمن وفاقی تحقیقی ادارہ ہے۔ اس کے محققین نے میکلن ہورسٹ کے ایک تجرباتی فارم میں سوروں کو آداب سکھانے کی کوشش کی۔ یہاں، آٹھ سے دس جانوروں کی چھوٹی اسکول "کلاسوں" کا استعمال کرتے ہوئے، انہوں نے ایک سال کی عمر کے جانوروں کو انفرادی ناموں کا جواب دینے کی تربیت دی۔ نوجوان جانور اس کو سیکھ گئے۔ ایک ہفتے کی تربیت کے بعد، ان کو بڑے گروپ میں واپس بھیج دیا گیا۔ کھانے کے اوقات میں ہر جانور کو باری آنے پر نام لے کر بلایا گیا۔ اور اس نے کام کیا۔ جیسے ہی لاؤڈ سپیکر سے "برن ہلڈے" کی آواز گونجی، واحد سور ان میں سے نکل کر ناند کی طرف دوڑا۔ یہ وہ وہی تھا جسے بلایا گیا تھا۔ جبکہ باقی اونگھتے رہے۔ دوسرے جانوروں کی ناپی گئی دل کی دھڑکن کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا، اور صرف وہ جانور جس کو طلب کیا تھا تھا، اسکی نبض تیز ہوئی تھی۔ اس تکنیک نے نوے فیصد درست نتائج دیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اہم کیوں ہے؟ اپنی ذات کو کسی نام کے ساتھ منسلک کرنا ہمیں خودآگاہی کے بارے میں بتاتا ہے۔ اور یہ شعور سے ایک درجہ اوپر ہے۔ شعور تو سوچ کے عمل کا نام ہے جبکہ خودآگاہی کا مطلب یہ ہے کہ آپ پہچانتے ہیں کہ آپ ایک ذات اور فرد کے طور پر اپنا وجود رکھتے ہیں۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں