جانوروں
میں اس صلاحیت کی جانچ کرنے کے لیے، گورڈن گیلاپ نے آئینے کا تجربہ ایجاد
کیا: وہ جانور جو یہ پہچانتے ہیں کہ آئینے میں نظر آنے والا عکس کوئی دوسرا
جانور نہیں بلکہ ان کی اپنی تصویر ہے، بظاہر خود آگاہ ہوتے ہیں۔ گیلاپ نے
چمپینزیوں کو بے ہوش کر کی ان کی پیشانی پر رنگین دھبہ پینٹ کیا۔ پھر انہوں
نے ان کے سامنے ایک آئینہ رکھا اور یہ دیکھنے کے لیے انتظار کیا کہ جب وہ
جاگتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔ جیسے ہی بندروں نے نیند سے دھندلی آنکھوں سے
اپنے عکس دیکھے، انہوں نے رنگ کو رگڑ کر صاف کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ واضح
طور پر وہ فوراً سمجھ گئے تھے کہ وہ خود کو ہی دیکھ رہے ہیں۔
تب سے، اس
ٹیسٹ کو اس بات کا ثبوت سمجھا جاتا ہے کہ جو جانور اسے پاس کرتے ہیں وہ
خود آگاہی رکھتے ہیں۔ (انسانوں میں، بچے تقریباً اٹھارہ ماہ کی عمر تک اس
ٹیسٹ کو پاس نہیں کرتے۔) پرائمیٹ، ڈولفن اور ہاتھیوں نے اس جانچ کو سب سے
پہلے پاس کیا۔
سائنسدانوں کو اس وقت حیران ہوئی تھی جب کوّوں نے بھی
اپنے عکس کو پہچانا۔ ایسا ہی میگپیز اور دوسرے corvids نے کیا۔ ان کی ذہانت
کی بدولت، لوگوں نے ان پرندوں کو "پروں والے بندر" کہنا شروع کر دیا۔ پھر
سائنسی مقالوں میں سور نمودار ہونے لگے۔ ڈونلڈ بروم اور ان کی ٹیم نے ایک
رکاوٹ کے پیچھے کھانا رکھا۔ آئینے کو ایسے رکھا کہ اس میں سے یہ نظر آتا
تھا۔ آٹھ میں سے سات جانور چند سیکنڈ میں ہی سمجھ گئے کہ انہیں رکاوٹ سے
ہٹ کر کیسے کھانے تک پہنچنا ہے۔ ایسا کرنے کے لئے نہ صرف انہیں خود کو
پہچاننا تھا (یعنی کہ یہ پہچاننا تھا کہ آئینے کے عکس میں وہ خود ہیں)
بلکہ ماحول اور ارد گرد کی جگہ کا بھی حساب کرنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن
ہمیں آئینے کے تجربے کے نتائج کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے، خاص طور پر
ان جانوروں کے معاملے میں جو اسے پاس نہیں کرتے ہیں۔ جب کتے اپنے دھبے والے
عکس کو دیکھتے ہیں اور ردعمل ظاہر نہیں کرتے ہیں، تو ہم کیسے جانیں کہ ان
کے چہرے پر موجود دھبہ انہیں ذرا بھی پریشان کرتا ہے یا نہیں؟ اور اگر کرتا
بھی ہے، تو شاید وہ نہیں جانتے کہ آئینہ کیسے کام کرتا ہے۔ شاید وہ اسے
ایک رنگین تصویر یا ایک ویڈیو سمجھتے ہوں جیسے کہ ہم ٹیلی ویژن پر دیکھتے
ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب واپس گلہریوں پر۔ جب ان میں گود لینے کے
واقعات کی تحقیق ہوئی تو یہ معلوم ہوا کہ گلہریاں صرف ان ننھے بچوں کو گود
لیتی ہیں جو کہ ان کے رشتہ دار ہوں۔ بھتیجے، نواسے وغیرہ۔ کینیڈا کی مک گل
یونیورسٹی کے محققین کے مطابق ان میں گلہریوں کی آوازوں کا اہم کردار ہے۔
ہر گلہری کی آواز منفرد ہے۔ اور یہ تنہائی پسند مخلوق ان کی مدد سے ایک
دوسرے کو پہچانتی ہے۔ یہ ایک دوسرے سے زیادہ میل ملاپ تو نہیں رکھتے لیکن
آوازوں کے ذریعے رابطے میں رہتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ
ہے کہ جب کچھ جانور اپنے رشتہ داروں کی آوازیں سننا بند کر دیتے ہیں تو وہ
اس کی تفتیش کے لیے آتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انہیں اپنا علاقہ چھوڑ کر
ایک انجان علاقے میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ اس وقت ان کے جذبات کیا ہوتے ہیں؟
ہم صرف اس بارے میں قیاس آرائی کر سکتے ہیں، لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ
جب وہ اجنبی علاقے میں اپنی تلاش کے دوران یتیم بچوں سے ملتے ہیں، تو وہ بے
بس بچوں کو اپنی نگہداشت میں لے لیتے ہیں۔
سائنس بہت سے دوسرے موضوعات
کی طرح اس موضوع کے بارے میں اپنی تلاش کے آغاز میں ہے۔ جیسا کہ میں نے
ابھی وضاحت کی ہے، نام رکھنا رابطہ کرنے کی ایک اعلیٰ شکل ہے جس میں بہت سے
جانوروں نے مہارت حاصل کی ہے۔ یہاں تک کہ مچھلیاں، جنہیں ہم خاموش مخلوق
سمجھتے ہیں، بھی اس مہارت میں شامل ہیں، لیکن ابھی ہم صرف اتنا جانتے ہیں
کہ وہ اپنے ساتھی کو تلاش کرنے یا اپنے علاقے کا دفاع کرنے کے لیے اپنی
پیدا آوازوں کا استعمال کرتی ہیں۔
Post Top Ad
Your Ad Spot
جمعرات، 27 مارچ، 2025
حیوانات کی دنیا (23) ۔ خودآگاہی
Tags
Inner Life of Animals#
Share This
About Wahara Umbakar
Inner Life of Animals
لیبلز:
Inner Life of Animals
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں