اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ جانوروں کے جذبات کا انسانی جذبات سے موازنہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ جانور جبلت سے عمل کرتے اور محسوس کرتے ہیں، جبکہ انسان شعوری طور پر عمل کرتے ہیں۔ اس سوال کی طرف جانے سے پہلے کہ آیا جبلتی رویہ کمتر درجے کا ہے، آئیے جبلتوں پر گہری نظر ڈالتے ہیں۔ سائنس "جبلتی رویہ" کی اصطلاح ان اعمال کو بیان کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے جو بغیر کسی سوچ کے عمل میں لائے جاتے ہیں۔ یہ اعمال جینیاتی طور پر پہلے سے طے شدہ ہو سکتے ہیں یا یہ سیکھے جا سکتے ہیں۔ ان سب میں جو بات مشترک ہے وہ یہ ہے کہ یہ بہت تیزی سے ہوتے ہیں کیونکہ یہ دماغ میں سوچ کے عمل کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اکثر یہ اعمال خاص اوقات میں (مثال کے طور پر غصے کے لمحات میں) خارج ہونے والے ہارمونز کا نتیجہ ہوتے ہیں، جو پھر جسمانی ردعمل کو متحرک کرتے ہیں۔ تو کیا جانور محض خودکار حیاتیاتی مشینیں ہیں جو خود بخود چلتی ہیں؟
اس کا فوری طور پر جواب دینے سے پہلے، ہم اپنی ہی نوع پر غور کریں۔ ہم خود بھی جبلتی رویے سے آزاد نہیں ہیں۔ چولہے کی گرم دیگچی کے بارے میں سوچیں۔ اگر آپ لاپرواہی سے اپنا ہاتھ اس پر رکھ دیں، تو آپ اسے پلک جھپکتے ہی واپس کھینچ لیں گے۔ اس سے پہلے کوئی شعوری غور و فکر نہیں ہوتا، کوئی اندرونی گفتگو اس طرح نہیں ہوتی: "یہ کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی چیز پک رہی ہو اور میرے ہاتھ میں اچانک بہت درد ہو رہا ہے۔ بہتر ہے کہ میں اسے ہٹا دوں۔" آپ صرف خود بخود ردعمل ظاہر کرتے ہیں، اپنے ہاتھ کو ہٹانے کا شعوری فیصلہ کیے بغیر۔ تو انسان بھی جبلتی طور پر کام کرتے ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ جبلتیں روزمرہ کے کاموں کا کتنا تعین کرتی ہیں۔
اس معاملے پر کچھ روشنی ڈالنے کے لیے دماغ کے حالیہ تحقیقات کی طرف دیکھتے ہیں۔ لیپزگ میں میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ نے 2008 میں کی گئی ایک حیرت انگیز تحقیق کے نتائج شائع کیے۔ MRI دماغی سرگرمی کو ڈیجیٹل تصاویر میں تبدیل کرتی ہے۔ اس کی مدد سے کی جانے والی تحقیق نے ظاہر کیا کہ رضاکاروں پر کئے گئے تجربات میں جو انتخاب وہ کرتے تھے، ایم آر آئی کی مدد سے سات سیکنڈ پہلے یہ معلوم ہو جاتا تھا کہ وہ کیا انتخاب کرنے والے ہیں۔ اس طرح یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ دماغ کا لاشعوری حصہ تھا جس نے عمل کو متحرک کیا۔ اور لگتا ہے کہ دماغ کے شعوری حصے نے چند سیکنڈ بعد اس عمل کی وضاحت پیش کی۔
اس موضوع پر تحقیقات ابھی بہت نئی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا ناممکن ہے کہ کتنے فیصد اور کس قسم کے فیصلے اس طرح کام کرتے ہیں، یا ہم لاشعوری طور پر شروع کیے گئے عمل کو مسترد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں۔ لیکن پھر بھی، یہ سوچنا حیرت انگیز ہے کہ ہمارے اس احساس کے باوجود کہ ہم ہر وقت مکمل طور پر کنٹرول میں ہیں ۔۔۔ بہت سے معاملات میں —ہمارا لاشعور—عمل کا انچارج ہوتا ہے۔
لیکن آخر میں، اس سے فرق کیا پڑتا ہے کہ شعور کا کنٹرول کتنا ہے۔ ہمارے خوف، دکھ، خوشی، مسرت اصل احساسات ہیں۔ اور ان کی اہمیت میں اس بات سے کوئی کمی نہیں ہوتی۔ جذبات لاشعور کی زبان ہیں۔ اور ہماری روزمرہ کی زندگی میں یہ ہمیں انفارمیشن کے سیلاب کے نیچے غرق ہو جانے سے بچاتے ہیں۔ گرم دیگچی پر لگنے والے ہاتھ کی تکلیف ہمیں فوری عمل پر مجبور کرتی ہے۔ خوشی ہمیں مثبت رویوں کی طرف دھکیلتی ہے۔ خوف ہمیں خطرناک کام کرنے سے باز رکھتا ہے۔ اور بہت کم ایسی چیزیں بچتی ہیں جو کہ شعور کی سطح تک پہنچ کر حل ہونے کے لئے رہتی ہیں جہاں پر ان کا آرام سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنیادی طور پر، جذبات دماغ کے لاشعوری حصے سے منسلک ہوتے ہیں، شعوری حصے سے نہیں۔ اگر جانوروں میں شعور کی کمی ہوتی، تو اس کا مطلب صرف یہ ہوتا کہ وہ سوچنے سے قاصر ہوتے۔ لیکن جانوروں کی ہر نوع لاشعوری دماغی سرگرمی کا تجربہ کرتی ہے، اور چونکہ یہ سرگرمی اس بات کی ہدایت کرتی ہے کہ جانور دنیا کے ساتھ کیسے تعامل کرتا ہے، اس لیے ہر جانور میں جذبات بھی ہونے چاہئیں۔ لہذا، جبلتی ماں کی محبت کو کمتر درجے کا نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ ماں کی محبت کی کوئی دوسری قسم موجود نہیں ہے۔
(جاری ہے)
Post Top Ad
پیر، 17 مارچ، 2025
حیوانات کی دنیا (4) ۔ جبلت
Tags
Inner Life of Animals#
Share This
About Wahara Umbakar
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
لیبلز:
Inner Life of Animals
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں