باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 17 ستمبر، 2018

ایک قوم کی موت - ہر زوال کو عروج نہیں ہوتا



انڈونیشیا سے چین کے جنوبی چین تک، ویت نام سے میانمار تک ایک طاقتور اور امیر سلطنت پھیلی تھی۔ صنعتی انقلاب سے پہلے دنیا کا سب سے بڑا شہر اینگکور تھا جس کا دورِ عروج گیارہوں سے تیرہویں صدی میں تھا۔ یہ خمیر کی سلطنت تھی۔ پھر کیا ہوا، اسے چھوڑ کر ابھی بیسویں صدی کا رُخ کرتے ہیں۔

کمبوڈیا میں خمیر لوگوں کی اکثریت ہے۔ ویت نام، تھائی لینڈ اور فرانس اس پر اپنا قبضہ رکھ چکے ہیں۔ امریکہ کی ویت نام کی جنگ میں کمبوڈیا نشانہ بنا۔ ویت نام سے بھاگ کر یہاں پر چھپنے والے جنگجوؤں پر امریکہ نے بم برسائے۔ اتنے زیادہ بم جتنے پوری دوسری جنگِ عظیم میں نہ برسائے گئے تھے۔ یہ برستے بم کمیونسٹ گوریلا جنگجوؤں کو روکنے کے لئے تھے لیکن ان کی تعداد بڑھتی گئے۔ وہ اس شورش کے دور میں پیرس سے تعلیم یافتہ لیڈر تلے اکٹھے ہو گئے جو پول پوٹ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ خمیر روج کی ابتدا تھی جو یہاں کی کمیونسٹ پارٹی تھی۔ برستے بموں سے ہوتی ہلاکتوں نے مرکزی حکومت کو کمزور کر دیا اور ان جنگجوؤں کو طاقتور۔

اس دوران مارشل لون نول نے بادشاہ کا تختہ اُلٹ دیا۔ معزول بادشاہ نے بھی خمیر روج کی حمایت کر دی۔ ملک کی خانہ جنگی میں کمپوچیا کی کمیونسٹ پارٹی فوجی ڈکٹیٹر سے علاقہ جیتنے لگی۔ ویت نام جنگ کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ دارالحکومت پر پول پوٹ کا قبضہ ہوا اور فوجی آمریت کا خاتمہ۔

جنگل سے آئے خمیر روج فوجی ڈکٹیٹرشپ کو ہٹا کر اس سے بھی کہیں زیادہ سفاکانہ نظام اپنے ساتھ لے کر آئے۔ انہوں نے اس کے نفاذ میں کوئی وقت ضائع نہ کیا۔ جس کو بھی 'ایلیٹ کلاس' کا نمائندہ قرار دیا گیا، اس کو قتل کر دیا گیا۔ بیوروکریٹ، فوجی، اساتذہ، دانشور۔ اب ملک میں سب کسان تھے۔ اپنے آنے کے چند گھنٹے کے اندر تعلیم کو غیرضروری قرار دے دیا گیا۔ بس چاولوں کے کھیت میں کام کر سکنا مہارت تھی۔ بھلا کتابوں کا کیا فائدہ؟ اچھی عینک پہننے اور اونچا ہنسنے پر لوگوں کو قتل کیا گیا۔ یہ اشرافیہ کی تعیشات تھیں۔ سکولوں کو جیلوں میں اور بیگار کیمپوں میں بدلا گیا۔ ایس 21 ان میں سے سب سے بدنامِ زمانہ قیدخانہ تھا۔ جو ایک وقت میں ہائی سکول تھا۔  یہاں پر آنے والے چودہ ہزار قیدیوں میں سے صرف بارہ قیدی زندہ بچے۔ اس میں عمر، جنس یا پارٹی کی تخصیص نہ تھی۔ خمیر روج کو یقین تھا کہ وہ ایک آئیڈیل معاشرے کی تعمیر کر رہے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا جب ہر کوئی ایک ہی جیسا ہو گا۔ ایک جیسی سوچ، ایک ہی نظریہ، ایک جیسی زندگی۔ اس عظیم مقصد کے آگے آنے والے کو زندہ رہنے کا حق نہیں تھا۔ پارٹی کی اجازت کے بغیر کسی سے محبت کرنے کا مطلب بھی موت تھا۔


پیسہ، فری مارکیٹ، ذاتی جائیداد، مذہب اور روایات پر سیاہ لکیر پھر دی گئی۔ سکول، پگوڈا، چرچ، مسجد، یونیورسٹیاں بند ہو گئیں۔ تہوار ختم ہو گئے۔ سیاہ انقلابی لباس ضروری قرار پایا۔ مذاق کرنا اور خوش ہونا جرم۔ اگلے چار سال میں چاول کی پیداوار کئی گنا کرنا اور امیر غریب کا فرق مٹا کر سب کا ایک جیسا ہو جانا قوم کا نصب العین۔ جب سب لوگ ایک ہی جیسے تھی تو نوکری دینے میں بھی تجربے یا مہارت کی ضرورت نہ تھی۔ ہر کام کسی کو بھی دیا جا سکتا تھا۔ بس پارٹی سے وفاداری ضروری تھی۔ ایسا ہی کیا گیا۔ یہاں تک کے ملک کا ایک حصہ چلانے کے لئے بارہ سال کی لڑکی کو دے دیا گیا۔
 

پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ غذائی قلت نے آن لیا۔ لیکن اپنی مرضی سے خوراک اُگانے کی اجازت نہ تھی۔ ایسا کرنا اجتماعیت کی نفی تھا۔ بھوک سے مر جانا انفرادیت دکھانے سے بہتر تھا۔ جب ملک ڈوبنا شروع ہوا تو اگلا قدم یہ کہ اپنے ہی لوگوں پر غداری کا الزام لگنا شروع ہوئے۔ یہ مسائل پارٹی میں موجود غداروں اور جاسوسوں کے تھے جو اس انقلاب کے عظیم مقاصد کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ علاج: ان کی موت۔ لوگوں پر الزامات لگا کر ان کو پکڑا گیا، ان سے تشدد کر کے غداروں کے نام 'اگلوائے' گئے۔ پورے خاندانوں کا صفایا ہوا۔ تین سال تک خمیر روج نے یہی طریقہ پورے ملک میں دہرایا۔ اگرچہ آبادی کمزور پڑ رہی تھی۔ لیڈر مارے جا چکے تھے۔ فوج کمزور ہو چکی تھی لیکن خمیر روج نے حیرت انگیز طور پر ویت نام پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس طرح کا خیال صرف اس جگہ پر قابلِ قبول ہو سکتا تھا جہاں لوگوں کے انکار کرنے کی صلاحیت مار دی گئی ہو۔ یہ جنگ یک طرفہ تھی۔ صرف چند دن میں ویت نام نے کمبوڈیا کے ہر بڑے شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔ خمیر روج واپس جنگل بھاگ گئے۔ ویتنام نے اپنی مرضی کی حکومت بنوا دی۔ ویت نام کا ملک کو آزاد کروانے پر پہلے استقبال ہوا، پھر یہ بیرونی قبضہ آور بن گیا۔ 

خمیر روج اس سبے کے بعد بھی مرے نہیں۔ بیس سال مزید زندہ رہے۔ حکومت کو دباؤ میں رکھتے رہے، ڈراتے رہے۔ عالمی سیاست کی وجہ سے خمیر روج کو بیرونِ ملک سے مدد ملتی رہی۔ صدیوں پرانی تاریخ کی وجہ سے سب سے زیادہ تھائی لینڈ اور چین کی طرف سے۔ اس تمام قتل و غارت کا علم ہونے کے باوجود ویت نام سے مخالفت کی وجہ سے خمیر روج کو اقوامِ متحدہ میں کمبوڈیا کا نمائندہ مانا جاتا رہا۔

ویت نام اور خمیر روج یہاں پر نوے کی دہائی کے آخر تک ملوث رہے۔ پھر اقوامِ متحدہ کی فوج آئی۔ معزول بادشاہ کو بحال کیا گیا اور پھر انتخابات۔

خمیر روج کے اس تاریک دور نے بیس لاکھ افراد کی جانیں لیں۔ ان کے ساتھ کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں۔ اقوامِ متحدہ کی کوشش کے باوجود کسی ایک کو بھی سزا نہیں ہوئی۔

خمیر روج کا دور ختم ہو گیا۔ کمبوڈیا میں نہ امریکہ کے گرائے بم ہیں، نہ پول پوٹ، نہ ویت نام کی فوج، نہ تھائی لینڈ اور چین کی مداخلت، نہ اقوامِ متحدہ۔ آج کا کمبوڈیا بس اپنی تاریخ کے ایک اور باب پر ہے۔ اس کے لئے پہلے کی گئی پوسٹ نیچے دئے گئے لنک سے۔

تیرہویں صدی کی شاندار سلطنت کا حال یہ بتاتا ہے کہ ہر عروج کو زوال تو ہوتا ہے، ہر زوال کو عروج نہیں۔ ہر پستی کے نیچے ایک اور پستی ہے۔

کمبوڈیا کے اس سال ہونے والے انتخابات پر
https://www.facebook.com/groups/AutoPrince/permalink/1320052434764029/ 
 

1 تبصرہ:

  1. مجھے آپ کا نام نہیں سمجھ آتا لیکن آپ کی ہر تحریر پڑھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ بہت معلوماتی غیر جذباتی اور غیر جانبدار ہوتی ہے
    اللہ آپ سے راضی ہو

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں