باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 28 ستمبر، 2023

جغرافیہ کے قیدی (40) ۔ مشرقِ وسطیٰ ۔ اردن اور لبنان


ہاشمی سلطنت، جسے اردن کہا جاتا ہے، ایک اور جگہ تھی جو برٹش نے تخلیق کی۔ پہلی جنگ عظیم کے وقت عثمانیوں کے خلاف کئی عرب قبائل نے برٹش کا ساتھ دیا تھا۔ ان میں سے دو خاص طور پر نمایاں تھے جو سعود اور ہاشم کے تھے۔ ان کے ساتھ لندن نے وعدہ کیا تھا کہ جنگ کے آخر میں انعام دیا جائے گا۔ بدقسمتی سے، دونوں کو ایک ہی جگہ دینے کا وعدہ کیا تھا جو کہ جزیرہ نمائے عرب تھا۔ سعود اور ہاشم کے قبائل آپس میں جنگیں لڑ چکے تھے تو یہ مشکل صورتحال تھی۔  لندن میں پرانے نقشے لے کر جھاڑے گئے۔ اس پر کچھ لکیریں بنائی گئیں۔ سعود خاندان کو ایک حصہ دے دی گیا اور ہاشمی خاندان کو دوسرا۔ سعود والے حصے کا نام سعودی عرب ہی رکھ دیا گیا۔
برٹش نے ہاشمی خاندان والے حصے کا نام ٹرانس جورڈن رکھا۔ اس کا مطلب “دریائے اردن کے دوسری طرف والا علاقہ” کے ہیں۔ امان اس کا دارالحکومت قرار پایا۔ اور جب برٹش 1948 میں جہاں سے گئے تو ملک نے اپنے نام سے ٹرانس ہٹا دیا۔ لیکن ہاشمی اس علاقے سے نہیں۔ یہ مکہ کے قریش قبیلے سے ہیں۔
اردن کی آبادی کا بڑا حصہ فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔ 1967 میں جب اسرائیل نے مغربی کنارے پر قبضہ کیا تو یہاں کے فلسطینی اردن آ گئے۔ یہ واحد عرب ملک تھا جو شہریت کا حق دیتا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اردن کی 11 ملین آبادی میں سے 3 ملین فلسطینی ہیں۔ اور یہ خود کو شاہ کا وفادار نہیں سمجھتے۔ اس کے علاوہ یہاں 1 ملین عراقی اور سیریا کے پناہ گزین ہیں۔ اور یہ سب اس ملک کے محدود وسائل پر بڑا دباؤ ہے۔
ایسا ملک جس میں اس قسم کا ڈیموگرافک تنوع ہو، سنجیدہ مسائل کا شکار ہو سکتا ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال لبنان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی تک لبنان کے پہاڑوں اور سمندر کا علاقہ سیریا کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ فرانس کے پاس آیا۔
گیارہویں صدی میں ایک خلافت بغداد میں تھی جو عباسیوں کی تھی، جو کہ سنی تھے۔ ایک خلافت قاہرہ میں جو فاطمیوں کی تھی، جو کہ شیعہ تھے۔شمال میں بازنطینی ریاست تھی جو کرسچن تھی۔ ان تینوں سلطنتوں کا سنگم جبلِ لبنان تھا۔ اور اس علاقے میں شیعہ، سنی اور کرسچن ۔۔ تینوں کمیونٹی موجود تھیں۔   
فرانس کا دیرینہ اتحاد اس علاقے کی عرب کرسچن آبادی کے ساتھ تھا۔ اور اس وجہ سے اس علاقے سے نکلتے وقت یہ ملک بنایا۔ اس کا نام یہاں کے پہاڑ پر رکھ دیا گیا اور یوں جمہوریہ لبنان کا ملک وجود میں آٰیا۔
یہ 1950 کی دہائی کے آخر تک یہ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا۔ یہاں کی کرسچن آبادی کی آبادی بڑھنے کی شرح مقابلتاً کم تھی۔ ایک اور بات یہ ہوئی کہ 1948 میں ان کے ہمسائے میں جنگ کے نتیجے میں فلسطینی آبادی بھاگ کر پناہ لینے یہاں آ گئی۔ اس سے یہاں کا آبادی کا نقشہ تبدیل ہوا۔
لبنان میں صرف ایک مرتبہ مردم شماری ہوئی ہے جو 1932 میں ہوئی تھی۔ چونکہ یہ اس ملک کے لئے انتہائی حساس معاملہ ہے، اس لئے دوبارہ اس کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکا۔ کیونکہ یہاں کا سیاسی نظام جزوی طور پر آبادی کے سائز کی بنیاد پر چلتا ہے۔
لبنان میں پہلی خانہ جنگی 1958 میں پھوٹ پڑی۔
آج اس کے دارالحکومت بیروت کے کئی علاقے شیعہ ہیں۔ اور جنوب میں شیعہ گروہ حز۔ ب اللہ کا غلبہ ہے۔ ایک اور جگہ جہاں پر اس جماعت کا قبضہ ہے، وہ وادی البقاع ہے۔
باقی شہروں میں سنی اکثریت میں ہیں۔ لیکن مختلف شہروں میں اکثریت اور اقلیت کے تنازعے چلتے رہے ہیں۔
لبنان صرف نقشے کی حد تک ایک ریاست ہے۔ بیروت کے ائیرپورٹ سے نکلیں تو جلد ہی پتا لگ جاتا ہے کہ یہ غلط تاثر ہے۔ آپ شہر تک پہنچنے کے لئے شیعہ علاقوں سے گزریں گے جہاں پر ملیشیا پہرہ دیتی ہے۔ لبنان کی فوج کاغذ پر ہی موجود ہے۔ 1975 سے 1990 تک یہاں خانہ جنگی رہی تھی۔ اگر ویسا دوبارہ ہو تو یہ بکھر جائے گی اور اس کے جنگجو اپنے علاقوں کی ملیشیا کا حصہ بن جائیں گے۔
سیریا میں جب خانہ جنگی شروع ہوئی تھی تو ایسا ہی ہوا تھا۔
لبنان پچھلے چار برس بدترین سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے۔ ایندھن، ادویات، روزگار، بجلی، بینکاری، پیسے نہیں۔ ملک میں اکتوبر 2019 میں اضافی ٹیکس لگائے کے بعد کرپشن، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے انقلاب آیا جو کامیاب رہا اور ملک اس نے ملک کو تباہ حالی کی طرف دھکیل دیا۔
اب اسے نقشے پر موجود ناکام ریاست کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑی ناکامی اس کے بالکل ہمسائے کا ملک ہے جو سیریا کی ریاست ہے۔
(جاری ہے)

 



 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں