باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 19 جون، 2019

اتحاد سے زندگی ۔ الاوئیس الگارونسس



زمین پر زندگی کا چکر سورج چلا رہا ہے۔ پودے، الجی اور کچھ بیکٹیریا اس توانائی سے اپنے لئے خوراک بناتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی سے شوگر بنا لیتے ہیں۔ غیرنامیاتی مادے کو نامیاتی مادے میں تبدیل کرنے کے اس عمل کو کاربن فکس کرنا کہا جاتا ہے۔ سورج کے ذریعے اس کو کرنے کو فوٹوسنتھیسز۔ خوراک کے تمام تانے بانے جن سے ہم واقف ہیں ۔ ہر درخت اور پھول، گدھ اور عقاب، ہم خود یا چیونٹی، کا بالآخر انحصار شمسی توانائی کو اس طرح حاصل کرنے کے اسی طریقے پر ہے۔ جب زندگی زمین پر شروع ہوئی تھی تو اس وقت توانائی اس طریقے سے نہیں لی جاتی تھی۔ یہ کرنا جانداروں نے بعد میں سیکھا تھا۔ ابتدائی زندگی اپنی توانائی خود اس وقت کی گرم زمین سے حاصل کرتی تھی، یہ عمل شمسی توانائی کی بجائے اپنی خوراک کیمیائی توانائی سے بنانے کا عمل ہے۔ میتھین یا سلفائیڈ کو آکسیڈائیذ کر کے توانائی حاصل کرنے کا عمل۔ فوٹو سنتھیسز کی جدت آ جانے کے بعد یہ طریقہ اس قدر مقبول ہوا کہ توانائی حاصل کرنے کا قدیم طریقہ ختم تو نہیں ہوا لیکن کم کم رہ گیا۔ ان گہرے پانیوں میں، جہاں پر سورج کا گزر نہیں، لیکن صرف وہاں پر ہی نہیں بلکہ کئی اور جگہوں پر بھی یہ موجود ہے۔ کم گہرے پانیوں میں بھی جہاں سلفائیڈ  کیچڑ میں ملتا ہے۔ سیوریج کے کیچڑ میں بھی۔ مرجان کے قریب بھی۔

اس پر تحقیق کرنے والی سائنسدان نکول ڈوبیرلئیر اس وقت اس عمل کو ایک اور جگہ پر سٹڈی کر رہی ہیں۔ اٹلی کے جزیرے البا کے قریب پانیوں میں۔ چند سینٹی میٹر لمبے وورم الاوئیس الگارونسس میں، جو زمین کے کیچووں کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ ڈوبلئیر کا کہنا ہے کہ بحیرہ روم کے اس کیچڑ میں سلفائیڈ سے توانائی لینے والے آرگنزم بہت سے ہیں اور اب ہم اس عمل کو گہرے پانیوں میں ہی نہیں بلکہ یہاں پر بھی پڑھ سکتے ہیں۔ ہر نئے ٹرپ میں ہم نئی انواع بھی ڈھونڈتے ہیں اور جانداروں کا نیا اتحاد بھی۔

کم گہرے پانی میں یہ عمل کرنا زیادہ مشکل ہے کیونکہ سلفائیڈ کی مقدار کم ہے تو پھر الاوئیس کیسے زندہ رہتے ہیں؟ ڈبلئیر کو اس کا جواب پہلی مرتبہ 2001 میں ملا۔ تہہ در تہہ تعاون سے۔ ان کی کھال کے نیچے چھوٹے بیکٹیریا سلفیٹ پکڑتے ہیں اور ان سے سلفائیڈ بناتے ہیں۔ پھر بڑے بیکٹیریا یہ سلفائیڈ پکڑتے ہیں اور ان سے کاربن فکس کرتے ہیں۔ چونکہ اس کیچڑ میں سلفیٹ زیادہ ہیں، اس لئے ان چھوٹے بیکٹیریا کا اضافہ توانائی کا چکر مکمل کر دیتا ہے۔ الاوئیس اس طریقے سے یہاں پر زندہ رہ سکتے ہیں۔

ڈوبیلیر کو اس وقت سے لے کر اب تک یہ پتا لگ چکا ہے کہ یہ چکر اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ محض یہ دو نہیں، پانچ طرح کے بیکٹیریا یہ پورا چکر مکمل کر رہے ہیں۔ دو سلفیٹ سے، دو سلفائیڈ سے اور ایک اور بھی چکردار شکل کا جاندار اس سب کا حصہ ہے۔ اس کا فنکنشن ابھی ٹھیک طرح معلوم نہیں، لیکن یہ بھی زندگی کے اس اتحاد کا حصہ ہے۔ ڈوبلئیر کہتی ہیں کہ ابھی اس سب کو معلوم کرنے میں کئی اور برس لگیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی پوری زندگی اسی میں لگ جائے۔ ان کو پکڑنے کے لئے کسی خاص گاڑی میں گہرے سمندر کی تہہ تک تو نہیں جانا پڑتا۔ غوطہ خوری سے کام ہو جاتا ہے۔ ایلبا میں، جزائر غرب الہند میں یا گریٹ بیرئیر ریف میں۔ یہ کام مشکل ہے لیکن اس پر تحقیق کی خاطر پانیوں میں غوطے لگانے والی ڈوبیلیر کے مطابق، مشکل کام بھی کسی کو کرنے ہی ہوتے ہیں۔

اس کا پہلا حصہ
https://waharaposts.blogspot.com/2019/05/blog-post_19.html

اس اتحاد کے بارے میں
https://en.wikipedia.org/wiki/Olavius_algarvensis

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں