باتیں ادھر ادھر کی

Post Top Ad

جمعہ، 28 مارچ، 2025

حیوانات کی دنیا (38) ۔ انسانوں سے تعلق


اچھی بات یہ ہے کہ جنگلی جانوروں اور لوگوں کے ساتھ رہائش کا ایک خوشگوار پہلو بھی ہے۔ اب دنیا کے کئی علاقوں میں یہ چیز بڑھ رہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہ سکتے ہیں۔ یورپ کے شہری علاقوں میں رہنے والے جنگلی جانوروں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے یہ ظاہر ہوتا ہے۔ جانوروں کے حلقوں میں یہ خبر پھیل رہی ہے کہ شہروں میں خطرہ کم ہو رہا ہے۔ جانوروں کے نقطہ نظر سے، کئی بڑے شہروں اور ویرانوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ زمین کو ڈویلپ کیا گیا ہے۔ اور ان شہری مراکز میں آپ کو اب کئی طرح کے جانور ملتے ہیں۔ دنیا میں اب شکرے کی سب سے بڑی آبادی برلن شہر میں ہے۔ یہ شہر کے پارکوں میں رہائش پذیر ہو گیا ہے۔ اور یہاں سے خرگوش اور کبوتر کا شکار کرتا ہے۔
یورپی چیل کا کسی وقت میں شکار کیا جاتا تھا۔ اب یہ انسانوں کے قریب رہائش تلاش کرتی ہے۔ خاص طور پر جب فصل کی کٹائی ہو تو یہ اسے بہت پسند ہے۔ مشین جب فصل کاٹتی ہے تو چوہے اور دیگر چھوٹے جانور سامنے آ جاتے ہیں اور چیل کے لئے ضیافت ہو جاتی ہے۔ جب ٹریکٹر کام کر رہا ہو تو پانچ فٹ کے سائز کے پروں والا یہ پرندہ اس جگہ پر منڈلاتا نظر آتا ہے۔ اور جس طرح ہی ٹریکٹر کاٹ کر آگے بڑھتا ہے تو یہ نئی کاٹی زمین پر کوئی جانور دیکھ کر زمین کی طرف جھپٹتا ہے۔
اور ہمارے پالتو جانور؟ کیا وہ ہمیں پسند کرتے ہیں اور اپنی آزاد مرضی سے ہمارے ساتھ رہتے ہیں؟ یا شاید یہ خوف ہے جو انہیں قریب رکھتا ہے؟  گائیں، گھوڑے، اور ہاں، ہماری بکریاں بھی، بنیادی طور پر قیدی ہیں۔ لیکن غالباً، یہاں ایک اور چیز کہی جا کستی ہے جس کا تعلق اسٹاک ہوم سنڈروم سے ہے۔ اس اصطلاح کو وضع کرنے والے، جرمیات دان اور ماہر نفسیات نیلز بیجیروٹ، 1973 میں سویڈن کے ایک بینک کو لوٹنے والے ایک شخص اور یرغمال بنائے گئے متاثرین کے درمیان تعلق کی تحقیقات کر رہے تھے۔ یرغمالیوں کے پاس اپنے بتیس سالہ اغوا کار کے لیے پسندیدگی کے جذبات تھے، جبکہ وہ پولیس اور حکام کے بارے میں ناپسندیدگی کے جذبات تھے۔ ایسا تضاد بہت سے حالات میں دیکھا گیا ہے اور اسے ایک حفاظتی نفسیاتی اضطراری عمل سمجھا جاتا ہے جو متاثرین کو ان کی خطرناک صورتحال کو قبول کر کے بچنے میں مدد کرتا ہے اور نفسیاتی نقصان کو کسی حد تک کم کرتا ہے۔
میرے نزدیک جانور حساس نفوس ہیں تو شاید ان کیلئے بھی ایسا ہی ہو۔ اگرچہ قدرت نے گھوڑوں اور بکریوں کو تمام عمر باڑ میں بند رہنے کے لئے نہیں بنایا۔ اور اگر باڑ نہ ہو تو یہ بھاگنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ لیکن شاید ان میں بھی سٹاک ہوم سنڈروم جیسی چیز کا اثر ہے۔ جو کہ شاید ان کے لئے اچھا ہی ہے۔
بلی اور کتے کے لئے یہ کچھ مختلف ہے۔ جب انہیں نئے گھر لایا جاتا ہے تو چند روز میں یہ مانوس ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ ابتدائی دنوں میں ایسا نہیں ہوتا لیکن اس کے بعد اگر انہیں چھوڑ بھی دیا جائے تو یہ بھاگتے نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مختلف جانوروں کا ایسا تعلق انسان اور پالتو جانوروں کے درمیان ہی نہیں۔ دوسری انواع میں بھی ہو سکتا ہے۔
بھیڑیے اور کوّے ایک مثال ہیں۔ ان پر کام کرنے والے محقق ایلی ریڈنگر کے مطابق، کوّے بھیڑیوں کے ریوڑ کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں، اور بھیڑیے کے بچے بھی سیاہ پرندوں کو کھیل میں شامل کرتے ہیں۔ جب بڑے ریچھ جیسے بڑے دشمن قریب آتے ہیں، تو کوّے اپنے چار ٹانگوں والے دوستوں کو خبردار کرتے ہیں۔ جبکہ بھیڑیے اپنے پروں والے ساتھیوں کو اپنے شکار پر ان کے ساتھ کھانے کی اجازت دے کر قرض ادا کرتے ہیں۔
(جاری ہے)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

میرے بارے میں