ضروری نہیں کہ جانور انسانوں سے زیادہ “شریف النفس” ہوں۔ یہ یقینی طور پر بہت جارحانہ ہو سکتے ہیں— نہ صرف دوسری انواع کے لیے بلکہ ایک دوسرے کے لیے بھی، جیسا کہ ہمارے صحن میں ایک سرسری نظر اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔ صحن سے سڑک تک، شہد کی مکھیوں کے چار چھتے ہیں، اور مصروف مکھیاں رس جمع کرنے کے لیے آس پاس کے علاقوں میں اڑتی ہیں۔ یہ تھکا دینے والا کام ہے، کیونکہ ایک اونس شہد پیدا کرنے کے لیے مکھیوں کو 125,000 پھولوں کا دورہ کرنا پڑتا ہے۔ وہ میرے لیے اپنا میٹھا سامان جمع نہیں کر رہی ہیں۔ وہ اس سے جو شہد بناتی ہیں وہ مکھیوں کے لیے توانائی کے ذریعے کے طور پر کام کرے گا۔ یہ ٹھٹھرتی سردیوں کیلئے ہے۔ اگر گرمیوں میں چیزیں توقع کے مطابق نہیں ہوتیں اور ان کے جمع کیے گئے شہد کے ذخائر کافی نہیں ہوتے، تو مٹھاس کے زیادہ وافر ذرائع کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات، اس کا طریقہ زیادہ رنگین پھول تلاش کرنا نہیں ہوتا بلکہ کمزور پڑوسی چھتے پر حملہ ایک ایسا موقع دے دیتا ہے۔
اسکاؤٹ مکھیاں یہ جانچتی ہیں کہ ہدف والے چھتے کی دفاع کی صلاحیت کیسی ہے۔ اگر یہ طفیلیوں یا کیڑے مار ادویات سے کمزور ہو گیا ہے، تو حملے کے لیے پکار کی جاتی ہے۔ چھتے کے داخل ہونے والی جگہ پر ایک شدید جنگ چھڑ جاتی ہے، لیکن محافظ حملہ آوروں کو زیادہ دیر تک روک نہیں پاتے۔ کسی موقع پر، حملہ آور قوت بہت مضبوط ہو جاتی ہے، اور حملہ آور مکھیاں آخری مرتے ہوئے جنگجوؤں سے گزر کر اندر داخل ہوتی ہیں۔ وہ شہد کے چھتوں پر جھپٹتی ہیں اور ان کے موم کے غلاف پھاڑ دیتی ہیں۔ بہت کم وقت میں، وہ اپنے معدے کو بھر کر اڑ جاتی ہیں، اپنے چھتے کے دیگر ارکان کے لیے یہ خوشخبری لے کر جاتی ہیں کہ یہاں کافی سے زیادہ خوراک ذخیرہ ہے۔ کمزور کالونی سے تعلق رکھنے والے چھتے میں، لوٹنے والوں کے اندر اور باہر اڑنے کے ساتھ ہزاروں پروں کی مسلسل آواز ہوتی ہے۔ جب جمع کرنے کے لیے کچھ نہیں بچتا، تو مکمل خاموشی چھا جاتی ہے۔ بدقسمتی سے، ایسا ہی ایک ڈرامہ میرے صحن میں پیش آیا، اور جب میں نے فتح شدہ چھتے کا ڈھکن اٹھایا، تو میرے سامنے مکمل تباہی کا منظر تھا۔ چھتے کے فرش پر موم کے ٹکڑے پھٹے ہوئے اور کٹے ہوئے چھتوں کے باقیات تھے۔ مردہ مکھیاں گری پڑی تھیں۔
تباہی کے باوجود، حملہ آور مطمئن نہیں۔ انہوں نے سیکھ لیا ہے کہ جب آپ اپنے پڑوسیوں پر حملہ کر کے لوٹ مار کر لیں تو زندگی بہت آسان ہوتی ہے۔ اگر موقع ملتا ہے، تو وہ کسی اور چھتے کے ساتھ دوبارہ ایسا ہی کریں گے۔ جنگل میں یہ کھیل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ یکساں طاقت والے چھتے ایک دوسرے کو قابو میں نہ رکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرف مکھیاں ہی نہیں جو سردیوں کے آغاز سے کچھ دیر پہلے گھبرا جاتی ہیں۔ یہ دوسرے جانوروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، بھورے ریچھ ہائبرنیشن کے لیے کھانا ذخیرہ نہیں کر سکتے۔ انہیں کھانے کے ذریعے چربی کی ایک تہہ چڑھانی پڑتی ہے۔ اگر خزاں میں زیادہ کھانا دستیاب نہیں ہے، یا جب ریچھ بوڑھے ہو جاتے ہیں اور اتنا زیادہ جمع نہیں کر سکتے، تو مشکل ہو جاتی ہے— ان ریچھوں کے لیے بھی اور انسانوں کے لئے بھی۔ جرمن فلمساز اینڈریاس کیلنگ نے مجھے اپنے ساتھی ٹموتھی ٹریڈ ویل کی افسوسناک کہانی سنائی۔ ٹریڈ ویل خود کو ریچھوں کا دوست سمجھتا تھا اور ان کے ارد گرد کوئی حفاظتی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتا تھا۔ ایک دن، وہ الاسکا کے کٹمائی نیشنل پارک میں ایک بوڑھے نر ریچھ کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے سردیوں میں زندہ رہنے کے لیے ابھی تک اتنی چربی نہیں چڑھائی تھی، شاید اس لیے کہ وہ اپنی ضرورت کے مچھلی کو پکڑنے کے لیے اب اتنا تیز نہیں تھا۔ ماہرین ایسے جانوروں کو خاص طور پر خطرناک سمجھتے ہیں۔ حسب معمول، ٹریڈ ویل کے پاس نہ تو کوئی ہتھیار تھا اور نہ ہی حفاظتی سپرے۔ بوڑھے ریچھ نے حملہ کیا اور اسے مار ڈالا۔ اس کی بیوی، جو وہیں دیکھ رہی تھی، خوفزدہ ہو گئی، اور اس نے چیخنا شروع کر دیا۔ یہ ریچھ کے لئے اشارہ تھا کہ مزید کھانا بھی دستیاب ہے۔ اس کی بیوی بھی بھوکے ریچھ کا شکار بن گئی۔ اس جوڑے کی باقیات ان کے خیمے کے قریب سے ملیں۔ ہمیں معلوم تھا کہ ہوا کیا ہے۔ کیونکہ ٹریڈ ویل اس وقت ریچھ کو فلما رہا تھا اور اس کا کیمرہ چل رہا تھا۔ کیمرے کے اوپر لینز ڈھکا ہوا تھا۔ اس لئے فلم تو ریکارڈ نہیں ہوئی لیکن اس جوڑے کی آخری آوازیں ریکارڈ ہو گئیں۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں