تعارف
فری مین ڈائسن برطانوی نژاد تھیوریٹیکل فزسٹ ہیں جن کا کام کوانٹم الیکٹروڈائنمکس، سولڈ سٹیٹ فزکس، آسٹرونومی اور نیوکلئیر انجیرنگ پر ہے۔ ڈائسن ٹرانسفورم (نمبر تھیوری کی بنیادی تکنیک)، ڈائنسن ٹری (مفروٖضاتی درخت جسے دمدار ستارے میں اگایا جا سکتا ہے)، ڈائسن سفئیر (میگا سٹرکچر جو خلا میں سفر کرنے والی تہذیب کی توانائی کی ضروریات پوری کر سکتا ہے)، ڈائسن سیریز اور ڈائسن آپریٹر (کوانٹم الیکٹروڈائنمکس کی ریاضی کئے لئے سیریز)، ڈائسن سیناریو (ہیٹ ڈیتھ کے باوجود زندگی کا طریقہ) ان کے نام سے منسوب ہیں۔ پچانوے سالہ ڈائیسن اپنے سائنسی کیرئیر میں کئی انعامات جیت چکے ہیں اور زندہ سائنسدانوں میں بہترین سائنسدانوں میں ان کا شمار کیا جاتا ہے۔ سپیس راکٹ کے ڈیزائن سے جینیاتی انجنیرنگ اور بائیوٹیکنالوجی تک، نیوکلئیر ری ایکٹر سے رینڈم میٹرکس تھیوری جیسے متنوع شعبوں میں کام کرنے کی وجہ سے ان کو سائنس میں بڑا مفکر اور پولی میتھ سمجھا جاتا ہے۔ ان کا اصل فیلڈ ریاضیاتی فزکس ہے۔ ان کو اپنی منفرد سوچ کی وجہ سے سراہا جاتا ہے۔
پس منظر
فزکس کی بنیاد دو ستونوں پر کھڑی ہے جو ہمیں بتاتے ہیں کہ ہماری دنیا کیسی ہے۔ ایک کائناتی سکیل پر، دوسری حقیقت کے مائیکروسٹرکچر پر۔ ان دونوں میں آپس میں اتفاق نہیں ہو پایا۔ کوانٹم مکینکس کے لئے ہر چیز ڈسکریٹ ہے۔ جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی کے لئے مسلسل۔ کوانٹم مکینکس امکانات کی بنیاد پر ہے، جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی ڈیٹرمنسٹک ہے۔ کوانٹم مکینکس میں سپرپوزیشن ہے، جنرل تھیوری آف ریلیٹویٹی اس سے ڈیل نہیں کر سکتی۔ کوانٹم مکینکس میں گریویٹی فٹ نہیں ہو پاتی۔ عام خیال یہ ہے کہ رئیلیٹی کو ٹھیک طرح سے جاننے کے لئے ان کی یکجائی ضروری ہے، لیکن پچھلے سو برس میں اس پر کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔ مندرجہ ذیل گفتگو ڈائسن کی اس مسئلے کے بارے میں رائے ہے۔
گفتگو
سوال: کیا ان دونوں تھیوریز کو یکجا کرنا ضروری ہے؟
جواب: نہیں، ہمیشہ کی طرح میری رائے اس پر اقلیتی رائے ہو گی لیکن میرے خیال میں دنیا کے واقعی دو الگ پہلو ہیں اور ان کو یکجا کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں اور مجھے ذاتی طور پر بھی یہ اسی طرح پسند ہے۔ زیادہ متنوع اور ذرا سی پرسرار۔ میرا خیال ہے کہ کلاسیکل دنیا کا تعلق ماضی سے ہے۔ ماضی کے بارے میں ہمارا تمام علم کلاسیکل ہے۔ ہمیں فیکٹس کا علم ہے۔ ہمیں علم ہے کہ کیا ہوا اور کب ہوا۔ زمین دھول کے بادلوں سے کیسے بنی۔ ہمیں علم ہے کہ براعظم چلتے پھرتے رہے ہیں۔ ہمیں علم ہے کہ یورینیم کا ایک خاص ایٹم نو بجے ڈیکے ہو گیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف کوانٹم مکینکس ہے جو مستقبل کے بارے میں ہمیں امکانات کیلکولیٹ کرنے میں مدد کرتی ہے۔ ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ یہ والا یورینیم ایٹم کب ڈیکے ہو گا۔ ہم اس کا امکان بڑے اچھے طریقے سے نکال سکتے ہیں کہ اس بات کا امکان دس لاکھ میں سے ایک ہے کہ اس ہفتے کے آخر تک یہ ڈیکے ہو جائے گا لیکن اس سے زیادہ نہیں۔ مستقبل امکانات پر ہے۔
اب ان دونوں الگ پہلووٗں کو اکٹھا کیسے کیا جا سکتا ہے اور کرنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ عظیم فزسٹ نیلز بوہر، جو کوانٹم مکینکس کے بانیوں میں سے ہیں، ان کا بھی خیال تھا کہ یہ الگ ہی رہیں گی اور میں ان سے اتفاق کرتا ہوں۔ ان کا خیال تھا کہ ایک کلاسیکل دنیا ہے۔ ہماری پیمائش کرنے کا اپریٹس ہمیشہ کلاسیکل ہوتا ہے۔ کوئی بھی چیز جس کا یقین سے کہا جا سکے، کلاسیکل ہوتی ہے۔ کوانٹم دنیا جو براہِ راست قابلِ مشاہدہ نہیں ہے لیکن موجود ہے، اس کو امکانات نکالنے کے لئے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مجھے اس خیال میں کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا۔
اس سے ایک نتیجہ نکلتا ہے۔ جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی کلاسیکل تھیوری ہے جو ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ کائنات بڑے سکیل پر کیسے کام کرتی ہے۔ یہ گریوٹیشن، سپیس اور ٹائم کی تھیوری ہے اور ایک جیومیٹریکل تھیوری ہے اور انتہائی کامیاب ہے۔ اپنی پریسیژن کے اعتبار سے انتہائی خوبصورت اور بنیادی طور پر سادہ تھیوری ہے۔ اگر اس کو کوانٹم مکینکس سے ملایا جائے تو اس کی یہ خوبصورتی ہی ختم ہو جاتی ہے۔ میرے خیال میں آئن سٹائن کی اس تھیوری کو تنہا چھوڑ دینا چاہیے اور کلاسیکل ورلڈ کو کوانٹم مکینکس میں زبردستی نہیں گھسیٹنا چاہیے۔
سوال: یہ بات ہمیں بالکل ابتدا میں لے جاتی ہے۔ جب ہم بگ بینگ تک پہنچتے ہیں تو یہ دونوں تھیوریز آپس میں الجھ جاتی ہیں اور ہمیں ریاضیاتی طور پر عجیب چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم اپنی سمجھ کو اس آخری نقطے تک لے جانا چاہتے ہیں تو کیا ہمیں اس بارے میں کچھ نہ کچھ آگے بڑھنا نہیں پڑے پڑے گا؟
جواب: یہ دلیل نہیں، ایک سٹیٹمنٹ ہے۔ ہمیں بگ بینگ کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتا۔ یہ یقینی طور پر ہوا تو ہے۔ اور یہ حیران کن ہے کہ ہمارا علم ماضی میں کس قدر دور تک جا چکا ہے لیکن ہم ابتدا تک نہیں پہنچے۔
سوال: ہمارے پاس چار بنیادی فورسز ہیں۔ الیکٹریسٹی اور میگنٹزم کو پہلے اکٹھا کیا گیا، پھر اس کو ویک فورس کے ساتھ یکجا کیا گیا، پھر سٹرانگ فورس کے ساتھ، لیکن گریویٹی اکٹھا ہونے میں مزاحمت کر رہی ہے۔ اس کو کیوں ایسے ہی رہنے دیا جائے؟ توانائی کے کسی لیول پر اس کو بھی یکجا نہیں ہو جانا چاہیے؟
جواب: ہو سکتا ہے کہ یہ ٹمپریچر کی طرح ہو۔ ٹمپریچر ایک کلاسیکل مقدار ہے۔ اس کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔ اس کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے لیکن اس کو کوانٹائز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا کوئی طریقہ ہی نہیں ہے۔ ٹمپریچر کوانٹم آبجیکٹ نہیں ہے۔ یہ مادے کی ایک شماریاتی خاصیت ہے۔ شاید گریویٹیشن کے بارے میں بھی ایسا ہی ہو۔
سوال: اگر ایسا ہے تو پھر تو اس کا بڑا دلچسپ مطلب نکلتا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہو گا کہ گریویٹون (جس طرح فوٹون الیکٹرومیگنٹزم کا کوانٹا ہے، ویسے گریویٹون گریویٹی کا) محض فکشن ہے؟
جواب: جی ہاں۔ یہ اس معنی میں تو فکشن ہے کہ اس کو ریاضیاتی طور پر پڑھا جا سکتا ہے لیکن اس کو اصل دنیا میں کبھی سٹڈی نہیں کیا جا سکتا۔ میں کوئی ایسا سوچ کا تجربہ بھی نہیں کر سکتا جو یہ بتا سکے کہ گریویٹون موجود بھی ہے یا نہیں۔ ہم ان کے بہت بڑے اور کوہیرنٹ ہجوم کو ڈیٹکٹ کر سکتے ہیں کیونکہ پھر یہ کلاسیکل فیلڈ بن جاتا ہے لیکن ایسا کلاسیکل فیلڈ گریویٹون کے بغیر بھی تو ہو سکتا ہے۔
سوال: تو پھر کیا آپ کو اس پر الجھن نہیں ہو گی کہ اگر گریویٹی کو ہم کبھی کوانٹم تھیوری میں لا ہی نہیں سکے؟
جواب: نہیں۔ اور اس میں مسئلہ کیا ہے۔ روزن فیلڈ کے مشہور پیپر میں ایک مشہور آرگومنٹ ہے جو انہوں نے الیکٹرک اور میگنیٹک فیلڈز کی پیمائش کے متعلق لکھا تھا۔ بڑی احتیاط سے پیمائش کے بارے میں انہوں نے کوانٹم پیمائش سے ثابت کیا تھا کہ فوٹون موجود ہے۔ اس کی وہی خاصیتیں ہیں جو اس کے بارے میں کہی جاتی ہیں۔ فوٹون کے بغیر الیکٹرک اور میگنیٹک فیلڈ موجود نہیں ہو سکتے۔ اگر آپ ان کے اپریٹس کو بہت احتیاط سے دیکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس میں “کمپنسیشن” کو استعمال کیا گیا ہے، جو کہ انتہائی ضروری ہے۔ پیمائشی آلات میں چارج یا کرنٹ موجود ہیں۔ جب ان کو فیلڈ کی پیمائش کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو یہ اپریٹس اضافی فیلڈ پیدا کر دیتا ہے، جو پیمائش کو خراب کر دیں گے اگر ان کو کمپنسیٹ کرنے کے لئے ان کے مخالف اتنا ہی فیلڈ مخالف چارج اور کرنٹ پیدا نہ کیا جائے۔ اس فیلڈ کی پیمائش نہیں کی جاتی بلکہ اس سے ہم پہلے پیداکردہ فیلڈز کا اثر ختم کرتے ہیں۔ یہ اس تمام آرگومنٹ کا ضروری حصہ ہے۔ اگر اسے گریوٹیشنل فیلڈ کے ساتھ کیا جائے تو آپ کے پاس ایک ماس ہونا چاہیے جس سے پتا لگایا جا سکے کہ گریویٹیشنل فیلڈ موجود ہے لیکن اس کو کمپنسیٹ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ کیونکہ منفی ماس موجود نہیں۔ یہ ایک بڑا فرق ہے۔ روزن فیلڈ کے آرگومنٹ نے جس طرح فوٹون کی کوانٹائزیشن کو سپورٹ کیا، وہ گریویٹی میں ناکام ہو جاتا ہے۔
سوال: ایک اور مسئلہ گریویٹی کا انتہائی کمزور ہونا ہے کہ ان کی پیمائش کی کیٹگری ہی مختلف ہو گی۔
جواب: اگر آپ لائیگو آپریٹس کو دیکھیں، جو اب کلاسیکل گریویٹشنل فیلڈ کی پیمائش کے قابل ہوا ہے، اور یہ معلوم کریں کہ کم سے کم کتنی گریوٹیشنل ویو کا یہ پتا لگا سکتا ہے، تو اس کا جواب یہ نکلتا ہے کہ ایک کے بعد 37 صفر لگائے جائیں، تو اتنے گریویٹون ہوں گے تو پھر ہی یہ ان کو معلوم کر سکے گا۔ یعنی ہمیں اس کو اس قدر زیادہ مزید حساس کرنا پڑے گا، اگر ہم ایک گریٹون کی پیمائش کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس پر جو کیلکولیشن کی ہے، اس کے مطابق اس کو اصولی طور پر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسا اپریٹس بنایا جائے گا جو ایک گریوٹون کی پیمائش کر سکے تو یہ منہدم ہو کر بلیک ہول بن جائے گا۔ یعنی قدرت ہمیں کہتی ہے کہ نہیں، ہم ایسا نہیں کر سکتے۔
سوال: آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف اس کا پتا نہیں لگایا جا سکتا بلکہ آپ کو اس پر کوئی پریشانی بھی نہیں کہ یہ دونوں تھیوریز ہمیشہ اور مستقل طور پر الگ رہیں گی۔ اور مستقبل کی کسی فائنل فزکس میں بھی ان کا ملاپ نہیں ہو سکے گا؟
جواب: جی ہاں۔ میرے خیال میں یہ کائنات ان دونوں خاصی مختلف تھیوریز کے الگ الگ رہنے کی وجہ سے زیادہ دلچسپ رہے۔ ابھی ان کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں ہیں جن کو ہم ابھی بلکل بھی نہیں سمجھتے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر یہ سوال ہی غیرمتعلقہ ہو جائے۔
اس انٹرویو کو دیکھنے کے لئے
https://youtu.be/pcicI_GJGcM
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں