باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 10 اکتوبر، 2019

پراپیگینڈا کے تخلیق کاروں کی عجیب دنیا



مندرجہ ذیل ایک صحافی اینڈریو مارانٹز کی گفتگو سے

میں نے تین سال سوشل میڈیا پر پراپیگنڈہ تخلیق کرنے والے بدترین لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے گزارے ہیں۔ اگر آپ حال میں آن لائن گئے ہوں تو آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ بہت سے زہریلے گند سے بھرا ہوا ہے۔ پراپیگنڈہ، وائرل ہوتی ہوئی جھوٹی انفارمیشن۔  میں جاننا چاہتا تھا کہ یہ بناتا کون ہے۔ میں سمجھنا چاہتا تھا کہ یہ پھیل کیسے رہی ہے۔  اور یہ کہ اس کا سوسائٹی پر اثر کس طرح کا ہو رہا ہے۔ میں نے 2016 میں ان کو ٹریک کرنا شروع کیا کہ اس کا سورس کیا ہے۔ ان لوگوں تک جو ان کو بنا رہے ہیں اور اس کو پھیلا رہے ہیں۔ میں نے ان لوگوں سے رابطہ کیا اور کہا کہ “میں ایک صحافی ہوں۔ کیا میں آپ کو کام کرتے دیکھ سکتا ہوں؟” اکثر تو مجھے نفی میں جواب ملتا لیکن کئی لوگ تھے جنہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس طرح میں ایک سوشل میڈیا پراپیگنڈسٹ کے گھر پہنچ گیا۔ یہ صاحب جنوبی کیلے فورنیا میں رہتے تھے، شادی شدہ سفید فام شخص تھے۔ عمر چالیس سال کے قریب تھی۔ ان کے کمرے میں ایک میز پڑا تھا، جس پر کافی کا مگ رکھا ہوا تھا۔ لیپ ٹاپ ٹوئیٹ کرنے کیلئے، ایک فون پیغامات کیلئے اور ایک آئی پیڈ جس سے یوٹیوب پر ویڈیو ڈالا کرتے۔ اور بس۔ صرف ان آلات کی مدد سے وہ اپنے زہریلا مواد تیار کر کے دنیا میں پھیلا رہے تھے۔ اپنے انتہاپسند خیالات کو مین سٹریم میں لے کر آ رہے تھے۔

ایک روز جب میں وہاں پر تھا، نیویارک میں ایک بم پھٹنے کی خبر ملی۔ جس شخص نے یہ بم پلانٹ کیا تھا، اس کا نام مسلمانوں والا تھا۔ ان صاحب نے اس میں ایک موقع دیکھا۔ کیونکہ وہ امیگریشن کے خلاف تھے۔ انہوں نے لائیوسٹریمنگ شروع کر دی۔ اپنے فالوورز کو جوش دلانا شروع کر دیا کہ دوسرے ملکوں سے آنے والے کیسے ہم سب کو ختم کر دیں گے۔ اور یہ کہ وہ سب اپنے سوشل میڈیا کو کھلی سرحدوں کی ایجنڈا کو روکنے کے لئے استعمال کریں۔ کونسے ہیش ٹیک استعمال کریں۔ ان کا ٹرینڈ بنائیں۔ اور یہی ہوا۔ ایک سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے اور پھر لاکھوں ٹویٹ ہونا شروع ہو گئے۔ ان کیلئے تصویریں اور فقرے بنا لئے گئے۔ جارج سوروس کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ انہیں امیگریشن کی اس مصیبت کی جڑ قرار دیا گیا۔ سوروس ہنگری سے تعلق رکھنے والے ارب پتی ہیں اور آن لائن سازشی نظریات والوں کے نزدیک ایک ولن، جو گلوبلسٹ سمجھے جاتے ہیں۔ اس ایلیٹ جو تمام عالمی معاملات کنٹرول کرتا ہے۔

یہاں پر ذرا ٹھہریں۔ کیا یہ آئیڈیا آپ کو جانا پہچانا لگتا ہے؟ دنیا میں چند ایلیٹ ولن جو دنیا کو کنٹرول کر رہے ہیں؟ نیویارک میں پھٹنے والے بم کی خبر کو مسلمانوں اور امیگریشن کے خلاف استعمال کرنا اور ایک امیر یہودی کو ولن بنا لینا؟ اس کی کوئی تُک بھی سمجھ آتی ہے؟ سازشی تھیورسٹ کی دنیا میں سب چلتا ہے اور یہ ہتھکنڈے اس کے ہتھیار ہیں۔ اور یہاں پر یہ بات بتاتا چلوں کہ جس شخص نے بم پلانٹ کیا تھا، وہ کہیں باہر سے نہیں آیا تھا، امریکی شہری تھا۔ اس کے پیچھے جو کچھ بھی تھا، امیگریشن کے قوانین کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔

کیا یہ مواد تحلیق کر کے لوگوں کو بھڑکانے والے یہ صاحب اس بات کو سمجھتے تھے؟ بہت اچھی طرح سے۔ وہ پڑھے لکھے شخص تھے جن کا مطالعہ وسیع تھا۔ ان کا پیشہ وکالت تھا۔ ان کو خود اس سب کے پیچھے فیکٹس معلوم تھے۔ انہیں پتا تھا کہ وہ جو بات کر رہے ہیں، وہ غلط ہے لیکن ان کو یہ بھی پتا تھا کہ آن لائن گفتگو میں فیکٹ اہمیت نہیں رکھتے، جذبات رکھتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوشل میڈیا کی آمد پر خیال تھا کہ یہ دنیا کو ایک زیادہ رواداری والی جگہ بنا دے گا کیونکہ مختلف طرح کے لوگ ایک دوسرے سے بات کر سکیں گے اور بات سن سکیں گے۔ ایسا بھی ہوا۔ لیکن سوشل میڈیا کے الگورتھم اس بات کا فرق نہیں کرتے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ کونسی چیز سوسائٹی کے لئے اچھی ہے، کونسی بری۔ کیا شے لوگوں کو جوڑتی ہے، کیا شے ان کو توڑتی ہے۔ ان کا کام انگیج منٹ کی پیمائش ہے۔ کس چیز پر کتنے کلک ہوئے، کمنٹ کئے گئے، شئیر ہوئے، آگے بڑھایا گیا۔ اگر آپ کو اپنے مواد کے لئے انگیج منٹ کی ضرورت ہے تو اس کا طریقہ جذبات بھڑکانے والا مواد بنانا ہے۔ بیہیوریل سائنٹسٹ اس کو جوش والی حالت کہتے ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسی چیز ہے، مثبت یا منفی، جو دل کی دھڑکن تیز کر دے۔

میں ایسا مواد تخلیق کرنے والوں کے ساتھ بیٹھا کرتا۔ صرف کیلے فورنیا والے صاحب کے ساتھ ہی نہیں، درجنوں لوگوں کے ساتھ۔ اور پھر دیکھتا کہ وہ یہ کام کس طرح کامیابی کے ساتھ کر لیتے ہیں۔ بار بار کر لیتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ وہ کوئی ہیکر ہیں یا ٹیکنالوجی کا کوئی اچھے طریقے سے استعمال کرنا آتا ہے یا ان کے پاس کوئی منفرد سیاسی بصیرت ہے۔ بلکہ صرف اس لئے کہ ان کو پتا ہے کہ سوشل میڈیا کام کیسے کرتا ہے۔ اور وہ اس کا فائدہ اٹھانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔

پہلے میرا خیال تھا کہ یہ کسی چھوٹی اقلیت کا مسئلہ ہے، جو انٹرنیٹ تک محدود ہے۔ لیکن نہیں، انٹرنیٹ اور باقی سب کچھ الگ الگ نہیں ہیں۔ کافی کے مگ سے چسکیاں لیتے ہوئے کسی کا بنایا گیا پراپیگنڈا سوشل میڈیا پر پاپولر ہو کر ذہنوں میں حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔ عام گفتگو اور معاشرے کا سچ بن جاتا ہے۔ انتخابات کے فیصلے کروا دیتا ہے۔ لوگوں کے ذہن پلٹ دیتا ہے۔ بغیر کسی شواہد کے، بنائی گئی خودساختہ انفارمیشن کی اپنی زندگی ہے۔

ایسا مواد، جو ایک وقت میں اتنا شاکنگ تھا کہ لگتا تھا کہ کوئی اس پر یقین بھی کرنے کو تیار نہیں ہو گا، اب اتنا نارمل ہے کہ ہم اس کا نوٹس بھی نہں لیتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے تین سال میں ایسے بہت سے لوگوں سے بات چیت کی۔ ان میں سے کئی ایسے تھے جن کا کوئی بھی نظریہ نہیں تھا۔ یه صرف اس لئے یہ کام کر رہے تھے کہ اگر آن لائن کچھ پیسے کمانے ہیں یا توجہ حاصل کرنی ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس قدر اشتعال انگیز مواد بنایا جا سکتا ہے، ویسا بنایا جائے۔ اس کے علاوہ کئی ایسے لوگ بھی تھے جو  صحیح معنوں میں نظریاتی تھے۔ یہاں پر اس بات کی وضاحت کہ ان کا نظریہ روایتی یا مین سٹریم خیالات نہیں تھے۔ یہ انتہاپسند عناصر تھے۔ نسل پرستی کے دور میں واپس لے جانا چاہتے تھے، خواتین سے ووٹ کا حق ختم کرنے کے حق میں تھے۔ کچھ لوگ جمہوریت کی بساط لپیٹ دینے کے خواہشمند تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ لوگ خود ایسے خیالات کے ساتھ پیدا نہیں ہوئے تھے۔ ان کو یہ سکول میں نہں پڑھایا گیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر انٹرنیٹ کے کسی غلط گوشے کا شکار ہو گئے تھے جس نے ان کو بدل دیا تھا۔

میں اس کو ہر کیس پر جنرلائز نہیں کر سکتا لیکن یہ ذہین لوگ تھے، البتہ اصل دنیا میں لوگوں سے بات چیت کرنے میں مسائل کا شکار تھے۔ آن لائن گمنام جگہوں پر رہنا ان کے لئے آسان تھا۔ سوشل میڈیا کے میسج بورڈز پر ان کو بدترین روپ سامنے آ جاتا تھا۔ کوئی ایسی بات جو ایک برا مذاق ہوتا تھا، اس پر ان کو اچھا فیڈبیک مل جاتا تھا (اس کو بے معنی انٹرنیٹ پوائنٹس کہا جاتا ہے)۔ یہاں تک کہ یہ اپنے ہی مذاق پر یقین کرنے لگتے تھے۔

میری ایک خاتون سے ملاقات ہوئی۔ وہ نیوجرسی میں پلی بڑھی تھیں۔ پھر کہیں اور جانا پڑا تھا۔ نئی جگہ پر سوشل دنیا سے منقطع ہو گئی تھیں اور اپنی دنیا اپنے فون تک محدود کر لی تھی۔ ان کو انٹرنیٹ پر ایسی جگہیں مل گئیں۔ جہاں پر لوگ شاکنگ اور قابلِ نفرت مواد پوسٹ کرتے تھے۔ ان کو یہ اچھا نہیں لگا لیکن پھر بھی نظریں ہٹانا مشکل رہا۔ ان جگہوں پر رہنے والوں سے ان کا مکالمہ شروع ہو گیا۔ انہیں لگا کہ لوگ ان کو سمارٹ سمجھتے ہیں۔ اس مثبت لوپ نے ان کو اس گرداب میں پھنسا دیا۔ یہ ان کی کمیونیٹی بن گئی۔ انہیں لگنا شروع ہو گیا کہ شاید اشتعال انگیز پیغامات کے پیچھے کوئی سچ بھی ہو۔ چند مہینوں کے بعد وہ اپنی اس نئی دنیا کے ساتھیوں کے ہمراہ سفید فام نسل پرستی کے حق میں مشعلوں کے ساتھ مارچ کرنے جا رہی تھیں۔ صرف چند ماہ میں اوبامہ کا سپورٹر ہونے سے سیاہ فاموں کے خلاف انتہاپسند نظریے کے حق میں مارچ کرنے کا سفر کر چکی تھیں۔ یہ خاتون تو بعد میں اس بھنور سے نکل آئیں۔ زیادہ تر پھنسنے والے نہیں نکل پاتے۔

میں اس کا قائل ہو چکا ہوں کہ اس مسئلے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسے سمجھنا ضروری ہے۔ اسے سمجھ کر ہم اس کے خلاف محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اچھا ہوتا کہ کوئی آسان فارمولا موجود ہوتا لیکن ظاہر ہے کہ یہ اتنا سادہ نہیں۔ انٹرنیٹ پر میرے اور آپ کی طرح کے شہری اس پر پھیلے زہر کی شدت کو کم کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟

سب سے پہلی چیز عقل مند تشکیک ہے۔ بغیر زیادہ گہری بات کئے ہوئے: شک کی دو اقسام ہیں۔ عقلمندانہ اور احمقانہ۔ عقل مندانہ تشکیک یہ کہ خود سوچیں۔ کسی کے دعوے پر سوال کریں، ایویڈنس دیکھیں۔ یہ اصلی تشکیک ہے۔ احمقانہ تشکیک الٹی گنگا بہانے کا رویہ ہے۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ زمین گول ہے۔  آپ کہتے ہیں کہ میں کیوں مانوں؟ ہر کوئی کہتا ہے کہ کسی بھی دوسرے کو کمتر انسان سمجھنا غلط ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ “کیوں؟” تو یہ معاملہ فرق ہے۔

دوسری چیز تہذیب اور شائستگی کو واپس فیشن میں لے کر آنے کی ہے۔  شائستگی اور سچ “نیک” لوگوں کا بورنگ کام نہیں، بنیادی انسانی قدر ہے۔

سوشل نیٹورکس کو اپنے پلیٹ فارمز کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان کے ٹھیک ہونے کا انتظار کرنے کے بجائے ہم خود اپنا رویہ ایک مرتبہ پھر دیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کوئی اچھی چیز دیکھتے ہیں، کوئی ایسی چیز دیکھتے ہیں جو سوچ میں مبتلا کر دے، کوئی گہری بات پڑھتے ہیں، اس کو شئیر کر سکتے ہیں تو شئیر کریں۔ خواہ وہ آپ کو جوش کی کیفیت میں نہ بھی لے کر جائے۔ جو چیز صرف جذبات کو اپیل کرے، خواہ اس سے متفق ہونے کو جی بھی چاہے، اسے نظرانداز کر دیں۔ بغیر سوچے سمجھے کچھ بھی آگے مت بڑھائیں۔ انجانے میں جھوٹ کا آلہ کار مت بنیں۔ سوشل میڈیا کی تاریک نگریوں سے دور رہیں۔ مجھے پتا ہے کہ یہ چھوٹا قدم ہے لیکن ایک کے بعد دوسرا شخص ایسا طرزِ عمل اپنائے گا تو سوشل میڈیا کے الگورتھم ہمیں ہی تو مانیٹر کر رہے ہیں، ان کا طریقہ بھی بدل جائے گا۔

انٹرنیٹ انقلابی ٹول ہے، جو ہم سب کو اکٹھا کر دے گا۔ یہ اچھے مستقبل کی نوید ہے۔
انٹرنیٹ ایک بڑا گند کا ڈھیر ہے، جس میں لگی آگ کو بجھانے کا کوئی طریقہ نہیں۔ یہ ہماری تباہی کا پیغام ہے۔

یوٹوپیا ہو یا ڈسٹوپیا، یہ دونوں باتیں ٹھیک نہیں۔ یہ دونوں ہمیں ہماری اپنی ذمہ داری سے پہلوتہی کا موقع دیتے ہیں۔ انٹرنیٹ ہمارے رابطے کا طریقہ ہے۔ ہم فیصلے کرتے ہیں کہ کیا کریں گے۔ کیا قابلِ قبول ہو گا۔ جب اس بات کو ہم اچھی طرح سمجھ لیں تو پھر کرنے والے کام کر سکتے ہیں۔ تاریک گوشوں میں پراپیگنڈا کے تخلیق کاروں کو ان کی خوراک، یعنی توجہ، سے محروم کر دینا جبکہ اخلاق، سچ اور مثبت فکر کی حوصلہ افزائی کرنا کسی اور کی نہیں، آپ کی اپنی ذمہ داری ہے۔ 



اس کو دیکھنے کیلئے
https://www.ted.com/talks/andrew_marantz_inside_the_bizarre_world_of_internet_trolls_and_propagandists?language=en



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں