باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 9 اکتوبر، 2019

زبان کی باتیں ۔ نالج کا سٹرکچر



زبان (لینگویج) کیا ہے؟

اس سوال کے مفصل جواب کیلئے تاریخ اور کلچر کو دیکھنا ہو گا۔ تاریخ اور کلچر کی جڑ انسانی نفسیات میں ہے۔ نفسیات کی جڑ کمپیوٹیشن، نیوروسائنس، جینیات اور ایولیوشن میں۔ ان کی جڑ ۔۔۔۔ ذرا ٹھہریں اس قسم کی گفتگو کچھ لوگوں کے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجا دیتی ہے کہ کہیں یہ سب سفید کوٹ میں ملبوس سائنسدانوں کا ہیومینیٹیز، آرٹس اورسوشل سائنس پر قبضہ کرنے کی کوشش تو نہیں۔ یہ شاندار موضوعات کہیں نیورونز، جینز اور ارتقائی حربوں کے بے رنگ ڈھیر میں تو نہیں گم ہو جائیں گے۔ یہ وہ صورتحال ہے جس کو ریڈکشنزم کہتے ہیں۔ ریڈکشنزم پیچیدہ فنامینا کو سادہ اور بنیادی اجزاء کے طور پر توڑ کر بیان کرنے کا نام ہے۔ البتہ بے رنگ ڈھیر بننے کا خوف بے جا ہے۔ زبان کے سوال کا جواب دینے سے پہلے ہم اس بات کو ایڈریس کر لیں۔ پھر جواب کی طرف چلیں گے۔

کولیسٹرول کی طرح ریڈکشنزم دو الگ طرح کا ہے۔ اچھا اور برا۔ برا ریڈکشنزم لالچی ہے جس کی کوشش کسی چیز کو اس کے چھوٹے سے چھوٹے اور سادہ سے سادہ جزو کے طور پر بیان کرنے کا نام ہے۔ اور لالچی ریڈکشنزم کی اصطلاح تخیلاتی یا سٹرامین نہیں۔ کئی سائنسدان ایسے ہیں جو واقعی یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایجوکیشن، تنازعوں کے حل اور دوسرے معاشرتی مسائل میں بریک تھرو نیورل ممبرین کی بائیوفزکس یا سائنیپس کے مالیکیولر سٹرکچر کی سٹڈی سے آ سکتے ہیں۔ البتہ سائنسدانوں کی اکثریت ایسا نہیں سمجھتی۔ جیسا کہ فلسفی ہلیری پٹنم نے کہا تھا کہ “گول سوراخ میں چوڑا کیل کیوں نہیں گھسے گا؟ اس کو مالیکیول یا ایٹم کی مدد سے نہیں بتایا جا سکتا۔ اس کے لئے تجزیہ کا ایک لیول اوپر درکار ہے جس میں اس کی سختی کی خاصیت (خواہ اس کا تعلق مالیکیولر سٹرکچر سے ہو) اور جیومیٹری کام کریں گے”۔

کسی انسانی رویے کے لئے کسی ہارمون کا بتا دینا، کسی ایم آر آئی کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے اس کو الٹی میٹ جواب کہہ دینا۔ یہ برے ریڈکشن ازم کی مثالیں ہیں۔ جواب دیتے وقت “اہم” اور “مکمل” ہم معنی نہیں۔

اسی طرح اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سوشیالوجی یا لٹریچر یا تاریخ کو بائیولوجی سے ری پلیس کیا جا سکتا ہے تو پر وہاں پر ہی کیوں رکا جائے؟ بائیولوجی کیمسٹری سے آتی ہے، کیمسٹری فزکس سے۔ پہلی جنگِ عظیم کی وجہ الیکٹرانز اور کوارکس کی مدد سے بتانا ذرا مشکل ہو گا۔ اور اگر بالفرض یہ تجزیہ کر بھی لیا جائے، پورا ماڈل بنا کر یہ بتا اور دکھا بھی دیا جائے کہ جنگِ عظیم بہت، بہت، بہت زیادہ کوارکس کی ایک بڑے پیچیدہ پیٹرن میں حرکت کے علاوہ کچھ نہ تھا تو بھی ہمیں اس سے کوئی انفارمیشن یا بصیرت نہیں ملے گی۔ یہ بے کار جواب ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے مقابلے میں اچھا ریڈکشنزم ایک شعبہ علم کو ری پلیس کرنا نہیں، ایک کا تعلق دوسرے سے جوڑنا ہے۔ ایک شعبے کے بلڈنگ بلاکس کو دوسرے شعبے میں مائیکروسکوپ تلے رکھا جا سکتا ہے۔ ایک ڈبے کے اندر بند ایک اور ڈبہ۔

ایک جغرافیہ دان یہ بتا سکے گا کہ افریقہ اور امریکاز ایک وقت میں  متصل تھے لیکن الگ پلیٹوں پر تھے اس لئے دور ہو گئے۔ پلیٹیں ایک دوسرے سے دور کیوں گئیں؟ یہ سوال جیولوجسٹ کے پاس چلا جاتا ہے، جو  پگھلے میگما کی حرکت سے اس کے دور جانے کا ذکر کرے گا۔ میگما کیوں گرم ہے؟ اس کے لئے فزسٹ زمین کے کور اور مینٹل میں ہونے والے پراسسز کا بتا دے گا۔ ہر سائنسدان ضروری ہے۔ اکیلے جغرافیہ دان کو پلیٹوں کی حرکتوں کو جادو کہنا پڑے گا۔ اکیلا فزسٹ جنوبی امریکہ کے ساحل کی شکل کی پیشگوئی نہیں کر سکے گا۔

بائیولوجی سے کلچر تک کا سفر بھی ایسا ہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب ذہن کو پڑھا جاتا ہے تو کم سے کم تین الگ لیول پر۔ اس کا فنکشن (ارتقائی تناظر میں)، اس کا آپریشن (لمحہ بہ لمحہ ورکنگ) اور اس کا سٹرکچر (نیورل ٹشو اور ڈویلپمنٹ)۔

اب اصل سوال کی طرف۔ زبان کیا ہے؟ 

“کوئی بھی زبان ذہن میں امڈتی ان گنت سوچوں کو گرائمر کے سٹرکچر کے تحت ڈھال کر دوسرے سے رابطہ کرنے کا طریقہ ہے۔ لوگ ان الفاظ اور بولنے کے اصولوں کو اپنی یادداشت سے نکالتے ہیں۔ دماغ میں یہ کام سنٹر سے بائیں طرف سیریبل ہیمسفئیر میں علاقوں کا نیٹ ورک سرانجام دیتا ہے جس کو یہ سب کرنے کے لئے یادداشت، پلاننگ، الفاظ کے معنی، گرائمر کا تال میل کوآرڈینیٹ کرنا ہے۔ یہ زندگی کے پہلے تین برسوں میں ڈویلپ ہوتا ہے۔ پہلے خالی الفاظ دہرا دینا، پھر ان کو جوڑ کر معنی بنانا، پھر فقرے اور پھر ان کا ٹھیک ہوتا سٹرکچر جس سے مکالمہ کیا جا سکے۔ الفاظ ادا کرنے کے لئے صوتی آلہ اور دماغ کا سرکٹ مل کر کام کرتے ہیں۔ دوسری پرائمیٹ میں ان سرکٹس کا فنکشن ایسا نہیں تھا۔ یہ انسان میں ہونے والی اہم ارتقائی تبدیلی تھی۔ اس نے انسان کو، دوسروں کو اپنی سوچ سے اور علم سے آگاہ کرنے میں اور اس کی مدد سے معاشرہ بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا”۔

یہ جواب بہت سے لیول رکھتا ہے۔ ان میں سے کوئی لیول دوسرے سے ری پلیس نہیں کیا جا سکتا اور اکیلے میں نہیں سمجھا جا سکتا۔

لیکن یہاں پر ایک اہم لیول ابھی باقی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زبان پر پچھلا دیا گیا جواب ابھی صرف میرے اپنے دماغ کے اندرونی اور انفرادی وجود تک محدود ہے۔ یہ جواب میری اپنی دیسی قسم کی انگریزی کے بارے میں تو ہو سکتا ہے۔ لیکن “انگریزی زبان”۔ اس کا ایک وجود ذہن سے باہر بھی ہے۔ پندرہ صدیوں کی تاریخ، بے شمار لہجے، دنیا بھر میں کئی دوسرے زبانوں کے ساتھ رلی ملی ہوئی، آکسفورڈ ڈکشنری کے پانچ لاکھ الفاظ۔

یہ بیرونی وجود مختلف جگہوں اور زمانوں میں رہنے والے اربوں لوگوں سے ہی آیا ہے۔ اگر انسان ایک دوسرے سے اس میں بات نہ کرتے، ان کے ذہنوں میں اس کا وجود نہ ہوتا تو اس زبان کا بیرونی وجود بھی نہ ہوتا۔ لیکن اس بیرونی وجود کی تخفیف (ریڈکشن) کسی بھی طرح سے نہیں کی جا سکتی۔ مثلا، یہ فقرہ “انگریزی زبان کا ذخیرہ الفاظ جاپانی زبان سے زیادہ ہے” ٹھیک ہو سکتا ہے، خواہ کسی بھی انگریزی بولنے والے شخص کا ذخیرہ الفاظ کسی بھی جاپانی بولنے والے شخص سے زیادہ نہ ہو۔

انگریزی زبان کو تاریخی واقعات نے تشکیل دیا جو کسی بھی ایک شخص کے کانوں کے بیچ میں نہیں ہوئے۔ سکنڈے نیویا اور نارمن کے حملے، جس نے اس کو نئے الفاظ دیے، پندرہویں صدی میں ہونے والا واول شفٹ جس نے بڑے لفظوں کے تلفظ اور ہجے بدل دئے۔ برطانوی سلطنت کی وسعت جس نے اس کی کئی طرح کی ورائٹی پیدا کی۔ آسٹریلین، امریکی، سنگاپورین وغیرہ۔ گلوبلائزیشن، جس نے میڈیا، ویب پیج اور ٹیلی ویژن کے ذریعے اس کو دنیا میں یکساں کر دیا۔

لیکن دوسری طرف یہ تمام پراسس اصل گوشت پوست کے لوگوں کی سوچ کو سمجھے بغیر بیان نہیں کئے جا سکتے۔ برطانوی، جنہوں نے فرنچ الفاظ جذب کئے۔ بچے جو ماضی کے صیغے غلط بولا کرتے تھے اور یہ زبان کا حصہ بن گئے۔ اشرافیہ، جو اس کے ایک خاص تلفظ پر اصرار کرتے رہے اور ہوشیار بولنے والے، جن کی وجہ سے پرفیکٹ ٹینس اس میں داخل ہوا۔ زبان بولنے والوں کے ذہنوں میں اپنی شکل بدلتی رہتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیرونی زبان کلچر کی ایک مثال ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کو سوشل سائنس اور ہیومینیٹیز کے سکالر پڑھتے ہیں۔

سوسائٹی اور کلچر کے سائیکولوجی اور بائیولوجی کے درمیان نصف درجن لیول ہیں تو پھر ہم ان کو جوڑنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ کسی بھی ایک ڈسپلن میں مقید رہ کر ہم اس سب عمل کی خوبصورتی دیکھ اور سمجھ نہیں پاتے۔ مسلز کو مقناطیسی دندانے دار پہیوں کے طور پر دیکھنا، پھولوں کو کیڑوں کو للچانے کے لئے، دھنک کو سفید روشنی کے اجزاء کی علیحدگی۔ کونسی چیز ویسی کیوں ہے؟ یہ جواب ہمیں اگلے ڈبوں سے مل جاتے ہیں۔ تمام سطحوں سے مل کر دیے جانے والے خوبصورت جواب جو کسی چیز کی وضاحت بھی کریں اور مفید بھی ہوں۔ الگ دھاگوں سے مل کر بنی گئی ایک مربوط تصویر۔۔۔ یہ نالج کا سٹرکچر ہے۔




یہ سٹیون پنکر کی کتاب سے لیا گیا ہے۔

سائنس کے درخت پر
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post.html

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں