باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 8 اکتوبر، 2019

عمارتوں کا مستقبل



شہروں کا غیررومانوی پہلو بیان کرنا ہو تو ان کو کنکریٹ کے جنگل کہہ دیا جاتا ہے۔ عمارت بنتی ہے، اس کو شیشے یا سٹیل یا دوسری اشیاء سے ڈھک دیا جاتا ہے کہ کنکڑیٹ نظر نہ آئے۔ جیسے یہ ہمارے لئے شرمندگی کا باعث ہو۔ ہم اس کو چھپانا چاہتے ہیں۔

اس سے ڈیم اور پل بنانا تو ٹھیک لیکن شہر کے اندر ہم اس کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے۔ ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ 1960 کی دہائی میں اس سے تعمیر آزادی کا اظہار تھا۔ اس نے شہروں کو بنایا تھا۔ان کو بدلا تھا۔ اس دہائی میں بنے رومانوی آرکیٹکچر اب ماضی کا حصہ رہ گئے ہیں۔ پھر کہیں ۔۔ یہ کنکشن ٹوٹ گیا تھا۔ شاید کئی خراب کوالٹی کے بھدے پلازے۔ شاید اس پر لکھے نعرے۔ شاید کنکریٹ کے کئی منزلہ فلیٹوں میں رہنے والوں کا انفرادیت کھو جانے کا احساس۔ یہ ضروری، سستا، فنکشنل، گرے، داغدار، غیرانسانی اور سب سے بڑھ کر بدصورت میٹیریل بن گیا۔

لیکن سچ یہ ہے کہ بھدا ڈیزائن خواہ سٹیل کا ہو، لکڑی کا یا اینٹ کا۔ بھدا ہی ہوتا ہے۔ کنکریٹ کے ساتھ البتہ یہ لیبل چپک گیا۔ ورنہ اس کی جمالیاتی خوبصورتی میں کوئی خاص مسئلہ نہیں۔ سڈنی اوپرا ہاوٗس کو دیکھ لیں۔ اس منفرد عمارت کی نشانی، اس کے خول، کنکریٹ سے بنے ہیں۔ لندن کا باربیکن سنٹر ایک مثال ہے جس کا غیرمعمولی اور زبردست آرکیٹکچر بتاتا ہے کہ ٹھیک استعمال سے کیا کچھ بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن پچھلے پچاس برسوں سے کنکریٹ ناقابلِ قبول ہے۔ بنیادوں میں اور ڈھانچے تک ٹھیک۔ اس سے باہر نہیں۔

لیکن اب اسے کے کئی نئے ورژن آ رہے ہیں جو اس کا جمالیاتی حسن کا تاثر بحال کرنے کے لئے ہیں۔ ان میں سے ایک خود اپنی صفائی کر لینے والی کنکریٹ ہے۔ اس میں ٹائٹینیم ڈائی آکسائیڈ کے ذرے ہوتے ہیں۔ یہ سطح پر بیٹھے ہوتے ہیں لیکن خوردبینی اور شفاف ہیں۔ جب یہ سورج سے الٹراوائلٹ شعاعیں جذب کرتے ہیں تو اس سے آزاد ریڈیکل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مٹی سے چھوئیں تو اس کو توڑ دیتے ہیں۔ ہوا یا بارش اس کو صاف کر دیتی ہے۔ عمارت خود ہی صاف ہو جاتی ہے۔ اس طرح کی سب سے پہلے بننے والی عمارت روم میں ایک چرچ ہے۔ (جو ساتھ تصویر میں نظر آ رہی ہے)۔
 

ٹائٹینیم ڈائی آکسائیڈ صرف صفائی ہی نہیں کرتی۔ یہ فضا میں نائیٹروجن آکسائیڈ کی سطح بھی کم کر دیتی ہے۔ یہ وہ گرین ہاوس گیس ہے جو گاڑیاں پیدا کرتی ہیں۔ کئی سٹڈیز یہ دکھا چکی ہیں کہ یہ کام کرتا ہے۔ یہ ایک اور ممکنہ چیز کا راستہ کھول دیتی ہے۔ مستقبل کی سڑکیں اور عمارتیں جامد پڑی اشیاء نہیں ہوں گی۔ یہ پودوں کی طرح شہر کی ہوا صاف کر رہی ہوں گی۔

لیکن ابھی کیلئے؟ یہ ہمارا بدصورت راز ہے۔ ہماری تعمیرات کا پچاس فیصد اس پر مشتمل ہے لیکن کسی ہڈی کی طرح پوشیدہ۔ جب یہ باہر نکل آئے تو ہمیں ناگوار لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا مستقل نہ رہے۔ اس کے فیشن کی پہلی لہر روم میں شروع ہوئی تھی اور پرسرار طریقے سے ختم ہو گئی تھی۔ دوسری لہر ساٹھ کی دہائی میں ختم ہوئی۔ اس بدلتی دنیا اور بدلتی ٹیکنالوجی میں ہمارے ذوق، ہمارے فیشن بھی تو جامد نہیں۔ ہم کسی چیز کو مل کر جاذبِ نظر قرار دے دیتے ہیں تو وہ جاذبِ نظر بن جاتی ہے۔ فولاد یا لکڑی، پتھر یا بانس تو ویسے رہتے ہیں، ہمارے اجتماعی ذوق یکساں نہیں رہتے۔ دیکھنے والی نظر بدل جاتی ہے۔ اس کی نئی آنے والی شکلیں اور ہمارے بدلتے ذوق، ہو سکتا ہے اس کی تیسری لہر شروع کر دیں۔ خود اپنی مرمت کرنے والے، پانی کی صفائی کرنے والے، کپڑے کی طرح لپیٹ دئے جانے والے، خود اپنی صفائی کرنے والے سمارٹ میٹیریل  سے ہم زندہ اور سانس لیتا آرکیٹکچر بنا سکیں۔ معاشرت کی تعمیر کے اس سب سے بنیادی میٹیریل سے ہمارا رشتہ ایک بار پھر بدل جائے۔

یہ اس کتاب سے
Stuff Matters by Mark Miodownik


پہلا حصہ
https://waharaposts.blogspot.com/2019/10/blog-post_6.html

دوسرا حصہ
https://waharaposts.blogspot.com/2019/10/blog-post_16.html

تیسرا حصہ
https://waharaposts.blogspot.com/2019/10/blog-post_7.html

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں