باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 26 نومبر، 2019

جڑواں بہنوں کی سالگرہ اور کچھ مشکل سوال ۔ جینیاتی ایڈٹنگ

آج چین میں دو بہنوں کی سالگرہ ہے۔ ایک کا نام لولو ہے، دوسری کا نام نانا ہے۔ اگر آپ کی خواہش ہے کہ آپ کی اولاد کی کچھ خاصیتیں آپ کی مرضی کے مطابق ہوں تو آپ کو ان میں دلچسپی ہو گی۔ 25 نومبر 2018 کو ان کی پیدائش کا اعلان یوٹیوب کے ذریعے کیا گیا تھا اور یہ اعلان ان کی والدین نے نہیں، لیبارٹری سے ایک سائنسدان نے کیا تھا۔

بائیوفزسٹ ہی جنکائی نے اعلان میں کہا تھا کہ یہ جڑواں بہنیں دنیا میں پہلی بار جینیاتی انجینرنگ والے بچے تھے۔ ڈاکٹر کے مطابق، یہ جڑواں جب ایک خلیے پر مشتمل تھے جب انہوں نے اور ان کی ٹیم کرسپر کاس نائن سے ان کی جینوم کو تبدیل کیا تھا۔ اس ایڈٹنگ میں انہوں نے ڈی این اے سے ایک گیٹ وے دور کیا تھا۔ اگر یہ گیٹ وے نہ ہو تو ایچ آئی وی وائرس اثر نہیں کر سکتا۔ یعنی انہوں نے ان کے جینوم کو بدل کر کے ان کو ایچ آئی وی کے خلاف مدافعت دے دی تھی۔

 کیا یہ جینیاتی انجینرڈ انسانوں کے عہد کا آغاز ہے؟ اور کیا ایک بچے کو پیدائش کے وقت ہی ایڈز جیسے موذی مرض کے خلاف ہمیشہ کے لئے محفوظ کرنے پر کسی کو بھی اعتراض ہو سکتا ہے؟
جی ہاں، اس تجربے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ کسی نے بھی اس کارنامے کو نہیں سراہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر اس اعلان میں سچ کہا گیا تھا تو واقعی لولو اور نانا پہلے انسان ہیں جن کی جینز کو مصنعوعی طریقے سے چھیڑا گیا ہے۔ اس سے اگلے چند ماہ ہونے سائنسی اور ایتھکس کی بحثوں کے بعد اس شعبے کے اٹھارہ بڑے ناموں نے جینیاتی انجینرنگ والے ایمبریو امپلانٹ کرنے پر عالمی پابندی کی تجویز دی۔ وہ اس پر مستقل پابندی نہیں لگانا چاہتے لیکن بغیر سوچے سمجھے اور بغیر سٹڈی کے اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ  اور خطرناک طرزِ عمل کو روکنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے پانچ سال کے لئے مکمل پابندی کا کہا ہے۔ پہلے اس پر وسیع بنیاد پر معاشرتی اتفاقِ رائے بنانے کا کہا ہے۔ لیکن یہ متنازعہ کیوں ہے؟

جب کسی کا ڈی این اے چھیڑا جاتا ہے تو وہ صرف اس شخص میں تبدیلی نہیں ہے۔ اس کا اثر اس کے بچوں پر ہو گا، اس کے بچوں پر ہو گا، اس کے بچوں کے بچوں پر ہو گا۔ ڈی این اے میں چھوٹی سے یہ کترن اگلی نسلوں کے ہزاروں افراد کو متاثر کرے گی۔ اس کو معاشرتی طور پر پہلے طے ہونا ہے کہ کیا ہم خود انسان کو بنانے کا کام فطرت کے ہاتھ سے اپنے ہاتھ میں لینا بھی چاہیں گے یا نہیں؟ اور نہیں، یہ سوال اتنا آسان بالکل بھی نہیں جتنا پہلی نظر میں لگتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر جنکائی نے لولو اور نانا کی پیدائش کو پہلے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی پیدائش سے تشبیہہ دی۔ سب سے پہلے ایسی پیدائش 1978 میں ہوئی تھی اور اس وقت بہت متنازعہ تھی، پھر آہستہ آہستہ یہ عام ہو گیا۔ معاشرتی طور پر اب قابلِ قبول ہے اور اس کی اب کوئی مخالفت نہیں کرتا۔ اندازے کے مطابق اسی لاکھ لوگ اس طریقے سے پیدا ہو چکے ہیں۔ اس میں سپرم اور ایگ کا ملاپ ایک شیشے کی پلیٹ میں کروایا جاتا ہے اور پھر ماں میں ڈالا جاتا ہے۔ لولو اور نانا کی پیدائش میں بھی یہی طریقہ اپنایا تھا۔ صرف یہ کہ اس میں ڈاکٹروں کی اس ٹیم نے درمیان میں ایک جین، سی سی آر 5 کو ایڈٹ کر دیا۔

ہمارے جسم میں، باقی سب کی طرح، یہ جین بہت سے کام کرتی ہے، جن میں سے ایک ایچ آئی وی گیٹ وے ہونا بھی ہے۔ اس میں جو میوٹیشن کی گئی، وہ کوئی غیرمعمولی نہیں۔ دنیا کی دس فیصد آبادی میں ہے۔ چینی ڈاکٹروں کا ایڈٹ بس اتنا تھا کہ ایک جین کی ایک حالت کو ایک اور قدرتی طور پر عام پائی جانے والی حالت میں مصنوعی طور پر لے گئے تھے۔ ان کے والد کو ایچ آئی وی تھا۔ ان بچیوں میں اس کے ہونے کا امکان زیادہ تھا۔ اس لئے یہ کام کیا گیا۔

اگر یہ ایڈٹنگ عام ہو جائے تو پھر ایچ آئی وی اور ایڈز ایک نسل میں ختم ہو سکتے ہیں؟ زبردست؟؟ ڈاکٹر کے مطابق ان کا اگلا ٹارگٹ دل کی بیماری ہے۔ جب یہ ڈاکٹر اس قدر زبردست چیزیں بتا رہے ہیں تو پھر اتنے اعتراض کیوں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس طرح کا تجربہ خود بہت ہی مشکلات والا ہے۔ اس میں اگر کوئی کمزوری ہے اور کچھ غلط ہوا ہے تو بچوں پر ہونے والے اثرات کسی بھی طرح کے ہو سکتے ہیں۔ یہ خامیاں اگلے کئی برسوں اور دہائیوں تک چھپی رہ سکتی ہیں۔ اگر کچھ ہوتا ہے، کوئی عارضہ ہو جاتا ہے تو پتا بھی کیسے لگے گا کہ اس کا تعلق اس ایڈٹنگ سے تھا یا کسی اور وجہ سے۔ ذمہ داری کا تعین کیسے ہو گا؟

جس دستاویز نے پابندی کا کہا ہے، اس میں ایسا کہنے کی وجوہات کی کئی اقسام ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلی ٹیکنیکل ہے۔ کرسپر ایک زبردست ٹول ہے جو بہت کچھ کر سکتا ہے۔ لیکن یہ ابھی بالکل نیا ہے۔ اور ہم ابھی اس کے اثرات میں سے بہت سی چیزوں سے ٹھیک واقف نہیں ہیں۔ جو جینیاتی ایڈٹنگ کے پرجوش حامی ہیں، وہ بھی انسانوں پر اس کے تجربے پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ جب یہ ایڈٹنگ کی گئی، اگر اس وقت اس خلیے نے اپنی کاپیاں بنانا شروع کر دی تھیں تو اس کا مطلب یہ کہ ایک خلیہ ایڈٹ ہو گیا، دوسرا نہیں۔ الگ خلیوں میں الگ ڈی این اے کا مطلب یہ کہ لولو اور نانا کے لئے ایچ آئی وی سے امیونیٹی نہیں ہو گی جبکہ اس کے ضرررساں اثرات ہو سکتے ہیں۔ اس کو مسایا سنڈروم کہا جاتا ہے۔ الگ ڈی این اے بہت سے مضر اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کی صرف امید کی جا سکتی ہے کہ ان کے ساتھ ایسا نہ ہوا ہو۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کرسپر اتنا زیادہ ایکوریٹ نہیں۔ کئی بار یہ غلط جگہ کو کاٹ دیتا ہے جو چوہوں پر تجربات میں دیکھا جا چکا ہے۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر سب کچھ ٹھیک ہو گیا تو کیا لولو اور نانا کو اس تبدیلی سے فائدہ بھی ہوا ہو گا یا نہیں؟ دوسری جینز کے ساتھ مل کر اس کا مجموعی اثر کیا رہے گا؟ جب یہ تبدیلی ان کی اگلی نسلوں میں جائے گی تو کیا اثرات ہوں گے؟ جینز صرف آن اور آف کے سوئچ نہیں جو صرف ایک چیز کو کنٹرول کرتی ہیں۔ اس جین کو آف کرنے سے ویسٹ نایل وائرس سے متاثر ہونے کے امکان میں اضافہ ہو جاتا ہے اور فلو کی حالت میں موت کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایسا ہر جین کے ساتھ ہے۔ ایک جین ہے جس کی وجہ سے پارکنسن کا امکان کم ہو جاتا ہے، اگر یہ آف ہو تو کروہن بیماری اور شٹزوفرینیا کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے۔ یعنی جینز میں اس چیز کا تعین کہ ان کی کونسی حالت زیادہ مفید ہے، کوئی سیدھا اور آسان سوال نہیں ہے۔ ان کے جوابات ابھی طے ہونے ہیں۔

کیا ہو سکتا ہے؟  کیا ہونا چاہیے؟ الگ سوالات ہیں۔ ڈاکٹر جنکائی نے یہ “پہلا” ہونے کی دوڑ میں کیا تھا جو شاید زیادہ اچھی وجہ نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ کا کہنا ہے کہ اس کو ایک سرجری کے طور پر دیکھ جا سکتا ہے۔ جو سوال ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ کیا یہ بلاضرورت تھی؟

اس کیس میں تو نہیں لیکن اگر کسی کیس میں اس کی واقعی ضرورت ہو؟ دونوں والدین کی کوئی جینیاتی کنڈیشن ایسی ہو جس کا اگلی نسل میں پہنچنا اس پہلے خلیے کے وقت روکا جا سکے اور ہمارے پاس ایسا کرنے کا ہتھیار بھی ہو اور والدین ایسا کروانا بھی چاہیں۔ پھر؟ ایسا کرنے کی اور تکنیکس بھی ہیں۔ ایک یہ کہ بہت سے ایمبریو بنائے جائیں جن میں سے ٹھیک والے کو منتخب کر کے پلانٹ کیا جائے۔ باقی سب کو ضائع کر دیا جائے۔ کیا یہ ٹھیک ہے؟

اس کے پھر معاشرتی، اخلاقی اور ایتھیکل سوالات ہیں۔ انسان کو کتنا تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ اگر ہم ٹھیک طریقے سے کسی مرض کا خاتمہ کسی کی پیدائش سے پہلے ہی ختم کر سکیں؟ ڈاوٗن سنڈروم یا کوئی اور ذہنی معذوری ٹھیک کر سکیں؟ اس پر تو شاید اعتراض کم ہو گا لیکن ایڈٹنگ سے تو اس سے زیادہ تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ کیا ہر تبدیلی ٹھیک ہو گی؟ وہ لکیر کہاں لگائی جائے جس میں کسی ضرر سے روکنا اور انسان کو بہتر کرنے میں تفریق کی جا سکے گی؟ کیا بچے کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا؟ آئی کیو یا جسم کو بدلنا؟ یہ سائنس فکشن نہیں ہے۔ سی سی آر 5 کی میوٹیشن والے بچے سکول میں بہتر پرفارم کرتے ہیں۔ یہ تبدیلی ہمارے پہنچ میں ہے۔ جانوروں میں سائز اور مسل ماس کو تبدیل کیا جا چکا ہے۔

اور اگر یہ نئے اور “بہتر” انسان حقیقت بن گئے اور آج سے ایک نسل بعد امیر لوگ اور اقوام اس کے استعمال سے بہتر نسلیں تیار کرنے کے قابل ہو گئے تو؟ یہ بہتر لوگ ہمارے جیسے عام لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ کیونکہ یہ پھر واقعی بہتر ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ ایک فرسٹریشن پیدا کرنے والا مشکل موضوع ہے۔ اور نہ صرف پہلے خلیے پر بلکہ اس کو زندہ انسانوں پر بھی استعمال کرنے کے طریقے سوچے جا رہے ہیں۔ اس کا طریقہ وائرس کے ذریعے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ ڈی این اے کو جسم میں امپلانٹ کرنے کا ہے۔الزائمر اور پارکنسن سے نجات پا لینے کی امید بہت اچھی لگتی ہے لیکن پھر وہیں پر کیوں رکا جائے؟ اگر میں جلد اور آنکھوں کی رنگت بدلوانا چاہوں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ہونا چاہیے کے مباحث کے ساتھ “کیا ہو سکتا ہے” بھی چلتا رہتا ہے۔ جس طرح ایڈورڈ جینر نے چیچک کے ویکسین کو اپنے مالی کے بیٹے پر ٹیسٹ کرنے جیسا غیر ذمہ داری اور خطرناک کام کر کے چیچک کو دنیا سے ختم کرنے میں پہلا قدم لیا تھا اور کروڑوں جانیں بچائیں تھیں۔ کیا یہ بھی ویسا ہو گا؟ 

تنقید کرنے والوں کی بات بالکل ٹھیک ہے۔ چینی ڈاکٹر کا اپنا نام بنانے کیلئے کیا گیا خودغرضانہ، غیر ذمہ دار، خطرناک اور شاید مجرمانہ فعل تھا۔ لیکن پہلا قدم تو لے لیا گیا ہے۔ ناقدین ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ نتیجہ کیسا رہتا ہے۔ اگر یہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا اور اگلے دس سال میں انسانوں میں تجربات کامیاب رہے تو کیا پتا میری سبز آنکھوں والے پوتے کی معصوم سی تمنا بھی پوری ہو سکے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں