باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 26 نومبر، 2019

خواب ۔ جانوروں کے، انسانوں کے

ایک روز میں ہمارا دماغ کی تین بہت مختلف شعوری حالتوں میں سے گزرتا ہے۔ ایک وہ والی جس میں آپ اس وقت ہیں۔ اگر آپ کے سر پر الیکٹروڈ لگا کر برین ویو دیکھی جائیں تو ہر سیکنڈ میں تیس سے چالیس بار اوپر اور نیچے ہو رہی ہوں گی جیسے تیز ڈھول بج رہا ہو۔ اس کو فاسٹ فریکونسی برین ایکٹیویٹی کہا جاتا ہے۔ یہ پیٹرن بے ہنگم ہو گا۔ یعنی اگر اس کو آواز میں تبدیل کیا جائے (جو کیا جا سکتا ہے) تو اس پر رقص نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی ردھم نہیں ہے۔ جب بستر پر کروٹیں بدلتے آپ نیند میں چلے گئے تو یہ شعوری حالت میں ہونے والی ایک تبدیلی ہے، اس وقت برین ویوز ایک بڑے ترتیب والے لیکن سست پیٹرن میں چلی جائیں گی۔ یہ نان ریم  نیند ہے۔ اس میں آپ کا شعور آف ہو گیا۔ تیسری حالت وہ ہے جب آپ خواب دیکھ رہے ہیں۔اس وقت آنکھ تیزی سے ہلتی رہتی ہے۔ اس کو ریپڈ آئی موومنٹ یا ریم نیند کہا جاتا ہے۔ اس میں دماغ کی ایکٹیویٹی جاگنے والی حالت کے قریب قریب ہوتی ہے۔ نیند پر ریسرچ کرنے والے بہت ہی آسانی سے بتا سکتے ہیں کہ کب خواب شروع ہوا اور کب ختم۔ ایک رات میں سوتے وقت نوے منٹ کے سائیکل میں ریم اور نان ریم سلیپ کا سائیکل چلتا ہے۔

دوسرے جانداروں میں بھی ایسا ہی ہے؟ جتنے بھی جانداروں میں ہم پیمائش کر سکتے ہیں، ان میں سے تمام نان ریم کی نیند کی حالت کا تجربہ کرتے ہیں۔ البتہ کیڑے، جل تھلیے، مچھلیاں اور اکثر رینگنے والے جانور ریم کی واضح حالت میں داخل نہیں ہوتے۔ پرندے اور ممالیہ مکمل طور پر ریم کی حالت میں داخل ہوتے ہیں۔ یعنی یہ خواب دیکھتے ہیں۔ اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ ارتقا کی تاریخ میں خواب کی انٹری کچھ دیر سے ہوئی۔

اس میں استثنا سمندری جانور وہیل اور ڈولفن ہیں۔ اس کی ایک اچھی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ ریم نیند کے دوران ہمارا جسم مکمل طور پر مفلوج ہو جاتا ہے۔ ایسا ہونا اس لئے ضروری ہے تا کہ ہم خواب میں مناظر پر ایکشن اپنے بازو اور ٹانگوں سے نہ لیں۔ پانی کے جانوروں کے لئے تیرنا ضروری ہے۔ انہیں سطح پر آ کر سانس بھی لینا پڑتا ہے۔ اگر یہ مکمل طور پر مفلوج ہو جائیں تو ڈوب جائیں گے۔

جب ہم ایک اور طرح کا گروپ دیکھتے ہیں جن میں فر سیل جیسے ممالیہ جانور ہیں جو کچھ وقت سمندر میں ہوتے ہیں اور کچھ وقت پانی میں۔ جب یہ زمین پر ہوتے ہیں تو ان کی نیند میں ریم اور نان ریم دونوں ہوتے ہیں، جب یہ سمندر میں سوتے ہیں تو نان ریم یا بالکل ختم ہو جاتی ہے یا پہلے سے دسویں حصے سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ جب خشکی پر آتے ہیں تو پھر ریم نیند شروع۔

ایک وقت میں خیال تھا کہ انڈے دینے والے ممالیہ جیسا کہ پلاٹیپس ریم نیند نہیں رکھتے۔ لیکن پھر پتہ لگا کہ یہ بھی رکھتے ہیں، البتہ اس کا ایک مختلف ورژن ہے۔ ان کا کورٹیکس (دماغ کا بیرونی سطح والا حصہ) اس نیند کی لہریں نہیں رکھتا لیکن جب اس کو گہرا کر کے دیکھا گیا تو دماغ کی بیس پر خواب والی اس نیند کی خوبصورت برقی ایکٹیویٹی نظر آئی اور یہ کسی بھی دوسرے ممالیہ سے زیادہ تھی۔

خواب والی نیند کی یہ ایک شکل حال میں ایک آسٹریلین چھپکلی میں نظر آئی ہے۔

نان ریم نیند کی ارتقائی تاریخ زیادہ پرانی ہے لیکن کیا یہ والی نیند خواب والی نیند سے زیادہ اہم ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ ہم تیزی سے دریافت کر رہے ہیں کہ اس کی اہمیت گرم خون والے جانوروں کے جسم کے بہت سے فنکشنز میں ہے۔ جذبات کی ریگولیشن، یادداشت کی ایسوسی ایشن، تخلیقی صلاحیت، جسم کے درجہ حرارت کی ریگولیشن اور دل کی صحت کا اس پر اثر ہوتا ہے۔

نیند ایک ایسی چیز ہے جس میں انسان تمام ایپس سے بہت مختلف ہے۔ نیو ورلڈ اور اولڈ ورلڈ منکی میں تمام کی نیند دس سے پندرہ گھنٹے کے درمیان ہے اور تمام پرائمیٹ میں خواب والی نیند کا دورانیہ نو فیصد ہے۔ انسان کی نیند آٹھ گھنٹے ہے اور خواب والی نیند کا دورانیہ بیس سے پچیس فیصد ہے۔ تقریباً تمام پرائمیٹ درختوں کی شاخوں پر یا گھونسلا بنا کر سوتے ہیں۔  گریٹ ایپ اپنا گھونسلا ہر روز بناتے ہیں۔ جبکہ انسان زمین پر سوتے ہیں (یا اس سے تھوڑا سا اوپر بستر پر)۔

زمین پر سونے کا مطلب یہ تھا کہ خطرہ زیادہ ہونے کی وجہ سے نیند کا دورانیہ کم ہو گیا۔ فطرت کا خوبصورت حل نیند کا زیادہ گہرا ہونا تھا۔ اس کیلئے خواب والا حصہ بڑھ سکتا تھا۔ گرنے کا خطرہ نہ ہونے کی وجہ سے خواب والے حصے کی نیند کا دورانیہ زیادہ ہو سکتا تھا۔ خواب والا حصہ بڑھنے کا مثبت تعلق تخلیقی صلاحیت اور جذبات سے ہے۔ انسان کی ایک بڑی خاصیت اس کا سوشل ہونا ہے۔ خواب والی نیند جذبات اور چہروں کو پہچان کے لئے ضروری ہے۔ یہ اس خواب والے حصے کی نیند کی وجہ سے ممکن ہوا۔ کم مگر گہری نیند سے ضرورت پوری کرنے کا مطلب یہ رہا کہ جاگنے کے دورانئے میں اضافے سے جاگنے والی شعوری حالت کے لئے اضافی وقت مل گیا۔ تخلیقی صلاحیت میں بہتری، بہتر معاشرتی تعلقات اور دستیاب ہونے والا اضافی وقت۔۔۔۔۔

خواب تو بہت سے جانور دیکھتے ہیں لیکن انسان جیسے نہیں۔ تو اگر چمپینزی یا گریٹ ایپ یا کوئی بھی دوسری نوع چاند پر نہیں پہنچ سکی، کمپیوٹر نہیں بنا سکی، ویکسین ایجاد نہیں کر سکی تو اس میں ایک وجہ ہمارے خواب ہیں۔ اور یہ محاورے والے نہیں، سوتے میں دیکھے جانے والے خواب ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں