باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 11 دسمبر، 2019

دیوار، وائرس اور دودھ ۔ دفاعی نظام کے حربے



تقریباً تمام جانور اپنے ایسے ٹشوز کو ڈھکنے کے لئے بلغم کا استعمال کرتے ہیں جن کا رابطہ بیرونی دنیا سے ہوتا ہے۔ ہمارے لئے اس کا مطلب آنت، پھیپھڑے، ناک وغیرہ ہے۔ یہ میوکین نامی بڑے مایلیکول سے بنی فزیکل رکاوٹ کا کردار ادا کرتی ہے۔ مرکز میں پروٹین کے تنے سے نکلتی ہزاروں شوگر مالیکیولز کی شاخیں جس میں میوکین کے انفرادی مالیکیول پھنسے ہوتے ہیں اور ان سے گزرنا ممکن نہیں رہتا۔ بلغم کی عظیم دیوار آوارہ جراثیم کو جسم میں گہرائی تک جانے سے روک دیتے ہیں اور صرف یہی نہیں ۔۔۔ اس دیوار کی نگہبانی وائرس کرتے ہیں۔

جب آپ کے ذہن میں وائرس کا تصور آتا ہے تو ایچ آئی وی، انفلوئنزا، ایبولا قسم کے مشہور ولن کرداروں کا آتا ہو گا جو ہمیں بیمار کر دیتے ہیں لیکن زیادہ تر وائرس وہ ہیں جو جراثیم کو بیمار کرتے اور مارتے ہیں (تفصیل نیچے لنک سے)۔ یہ بیکٹیریوفیج ہیں (جس کے لغوی معنی بیکٹیریا کو کھانے والے کے ہیں) یا مختصراً ان کو فیج کہا جاتا ہے۔ ان کی شکل کسی چاند گاڑی کے جیسی ہے۔ لمبی ٹانگوں کے اوپر کونوں والا ایک سر۔ جب یہ کسی بیکٹیریا پر لینڈ کرتے ہیں تو اس میں اپنا ڈی این اے ڈال کر اس پر قابض ہو جاتے ہیں اور اس کو مزید فیج بنانے کی فیکٹری بنا دیتے ہیں۔ یہ نئے فیج بیکٹیریا کو مار کر اس میں سے نکل آتے ہیں۔ فیج جانوروں کو بیمار نہیں کرتے اور بیمار کرنے والے وائرس کے مقابلے میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ آنتوں کے کئی ٹریلین مائیکروب کئی کواڈریلین فیج سپورٹ کر سکتے ہیں۔

کچھ برس پہلے روہرر کی ٹیم سے جرمی بار نے نوٹ کیا کہ فیج کو بلغم پسند ہے۔ عام ماحول میں اگر ایک بیکٹیریا کے لئے دس فیج ہیں تو بلغم میں ایک کے مقابلے میں چالیس۔ یہی تناسب ہمیں انسانی مسوڑھوں، چوہے کے پیٹ، مچھلی کی کھال اور مرجان پر نظر آتا ہے۔ تصور کریں کہ ان فیج کے ریوڑ بلغم میں سر گھسائے اور ٹانگیں نکالے ہوئے بیکٹیریا کی تاک میں ہیں کہ کوئی اگر اس دیوار کا رخ کرے تو ان کو مہلک جپھی ڈال دیں۔ اس پر روہرر کا اندازہ یہ ہے کہ جانور اس بلغم کی کیمیائی کمپوزیشن بدل کر خاص فیج بھرتی کر سکتے ہیں جو خاص بیکٹیریا کو نشانہ بنائیں اور دوسروں کو گزرنے دیں۔ یہ ایک طریقہ ہو سکتا ہے جس سے ہم اپنی پسند کے مائیکروب منتخب کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس تصور کا بڑا گہرا مطلب ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فیج کا (جو کہ وائرس ہیں)، ہمارے سمیت، جانوروں سے باہمی مفاد کا رشتہ ہے۔ یہ جراثیم پر قابو رکھتے ہیں اور جواب میں ہم ان کو بیکٹیریا فراہم کرتے ہیں تا کہ یہ نسل آگے بڑھاتے رہیں۔ جو فیج بلغم سے چپکے رہیں، ان کے پاس کوئی شکار ڈھونڈنے کا امکان پندرہ گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ بلغم ہر جانور میں یونیورسل ہے جس کا مطلب یہ کہ اس میں فیج یونیورسل ہیں۔ یہ پارٹنرشپ غالباً جانوروں کی دنیا کے آغاز سے ہی ہے۔ روہرر کا خیال ہے کہ شاید فیج اصل اور قدیم امیون سسٹم تھے جس سے سادہ جانور جراثیم کو کنٹرول کرتے تھے۔ اس کے لئے ٹھیک جگہ پر بلغم کی تہہ دینے کی ضرورت تھی۔ اس سادہ آغاز سے کنٹرول کے پیچیدہ نظام ابھرے۔

ممالیہ کی آنت دیکھیں تو اس میں بلغم کی دو تہیں ہیں۔ ایک کثیف تہہ جو ایپی تھیلیل خلیے کے اوپر ہے اور ایک ڈھیلی ڈھالی سی بیرونی تہہ جو فیج سے لبریز ہوتی ہے۔ یہیں پر مائیکروب بھی لنگرانداز ہوتے ہیں اور اپنی کمیونیٹی بناتے ہیں۔ اندرونی تہہ میں ان کی تعداد کم ہے کیونکہ ایپی تھیلیل خلیے جراثیم کش کیمیکل اینٹی مائیکروبیل پیپٹائیڈ کا آزادانہ چھڑکاوٗ کرتے رہتے ہیں۔ یہ چھوٹی مالیکیولر گولیاں ہیں جو کسی تجاوز کرنے والے کو ماری جاتی ہیں۔ یہاں پر ایک “غیرفوجی علاقہ” بن جاتا ہے جہاں پر مائیکروب رہائش پذیر نہیں ہو سکتے۔

اگر مائیکروب کامیابی سے بلغم کو پھلانگ لیں، فیج سے بچ آئیں، جراثیم کش سپرے سے محفوظ رہ لیں، ایپی تھیلیم کی سرحد کو کراس کر جائیں تو پھر دوسری طرف ان کو امیون سیلز کی بٹالین ملتی ہے جو ان کو نگلنے اور تباہ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اور یہ فوج صرف انتظار میں نہیں بیٹھی رہتی، حیران کن طور پر متحرک رہتی ہے۔ کئی ایپی تھیلیم کی سرحد کے دوسرے طرف جا کر معائنہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ اگر ان کو غیرفوجی علاقے میں کوئی درانداز بیکٹیریا مل جائے تو اس کو قیدی بنا کر واپس لے جاتے ہیں۔ اس سے انہیں انٹیلی جنس رپورٹ ملتی رہتی ہے کہ کونسی انواع بلغم میں پائی جاتی ہیں اور ان کے خلاف اینٹی باڈی بنانے اور دوسرے دفاعی اقدامات کرنے کی تیاری رکھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلغم، جراثیم کش پیپٹائیڈ اور اینٹی باڈیز ۔۔۔ ان کی مدد سے یہ طے ہوتا ہے کہ آنتوں میں کون رہے گا۔ چوہوں پر کئے گئے تجربات میں جب ان میں سے کسی کی کمی کی جائے تو اس کا نتیجہ کسی بیماری کی صورت میں نکلتا ہے۔ آنتوں کا امیون سسٹم ایک اندھی رکاوٹ نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ جو بھی اس کے پاس آئے گا، اس پر پل پڑے گا۔ یہ منتخب طریقے سے کنٹرول کا عمل ہے۔

یہ نظام صورتحال کے مطابق ری ایکٹو بھی ہے۔ مثال کے طور پر کئی بیکٹیریل مالیکیول آنتوں کے خلیوں کو زیادہ بلغم کی پیداوار کی تحریک دیتے ہیں۔ زیادہ بیکٹیریا کا مطلب حفاظت کی موٹی تہہ ہے۔ اسی طرح آنتوں کے خلیے بیکٹیریا کا سگنل موصول ہونے پر خاص پیپٹائیڈ خارج کرتے ہیں۔ یہ فائرنگ ہر وقت نہیں ہو رہی ہوتی بلکہ اس وقت جب ان کا شکار قریب ہو۔

یہ کہا جاتا ہے کہ امیون سسٹم مائیکرو بائیوم کی کیلیبریشن کرتا ہے۔ جتنے زیادہ مائیکروب ہوں گے، جواب اتنا طاقت سے آئے گا۔ اس کو ایک بالکل مختلف طریقے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ جسم کے مائیکروب امیون سسٹم کی کیلیبریشن کرتے ہیں۔ اس کی راہنمائی کرتے ہیں۔ یہ دوسرا نکتہ نظر اس وقت زیادہ ٹھیک لگنے لگتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آنت میں پائے جانے والے عام بیکٹیریا نے ہمارے امیون سسٹم کے ساتھ رہنے کے لئے کئی دلچسپ طریقے ڈھونڈے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دفاعی نظام کا کلاسیکل تصور یہ ہے کہ اس کا کام بیمار کرنے والے جراثیم کا خاتمہ ہے۔ یہ درست نہیں۔ وکی پیڈیا پر امیون سسٹم کی ابھی بھی یہ ڈیفی نیشن لکھی ہے کہ “کسی جاندار میں بائیولوجیکل سٹرکچر اور پراسس جو بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں”۔ یہ ایک بڑا محدود تصور ہے۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف کسی پیتھوجن کی آمد پر متحرک ہوتا ہے۔ پیتھوجن کو دور رکھنا اس کی اضافی ٹرِک ہے۔ اس کا اصل کام رہائش پذیر مائیکروب اور ہمارے تعلق کا توازن برقرار رکھنا ہے۔ یہ توازن اور اچھی مینجمنٹ کا کام ہے، نہ کہ دفاع اور تباہی کا۔

ریڑھ کی ہڈی والے جاندار (جیسا کہ ہم) اپنے پیچیدہ امیون سسٹم رکھتے ہیں جو خاص خطرات کے خلاف انفرادی اور طویل مدتی دفاع بناتے ہیں۔ اسی وجہ سے چکن پاکس ایک بار ہو جانے کے بعد دوبارہ نہیں ہوتا یا ویکسین لگوانا ہمیں بیماریوں سے محفوظ کر دیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیچیدہ امیون سسٹم کا ارتقا زیادہ پیچیدہ مائیکروبائیوم سپورٹ کرنے کے قابل بناتا ہے اور ان کا خاص اور باریک توازن والا رشتہ برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کا کام مائیکروب ختم کرنا نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ طرح کے مائیکروب کو سپورٹ کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہ ویسے ہے جیسے کسی نیشنل پارک میں رینجر۔ اگر یہ اس پارک کی باڑ (بلغم) کو عبور کریں گے تو رینجر انہیں واپس دھکیل دیں گے اور اس باڑ کو مضبوط بنائیں گے۔ یہ اس میں سے غیرمطلوب آبادی (پیتھوجن) کی بیخ کنی کر دیں گے۔ یہ اس کمیونیٹی میں توازن رکھنے والی فورس ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان رینجرز کو صرف زندگی کے ابتدائی دور میں آرام ملتا ہے جب مائیکروبائیولوجیکل سسٹم خالی ہوتا ہے۔ نومولود بچوں کے ابتدائی جراثیم کو رہائش پذیر ہونے کے لئے امیون سسٹم کی خاص کلاس جسم کے دفاعی نظام کو بند رکھتی ہے۔ یہ وہ وجہ ہے کہ بچہ ابتدائی چھ ماہ میں بہت جلد بیمار ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا امیون سسٹم کمزور ہوتا ہے (جو کہ عام خیال ہے) بلکہ یہ جراثیم کو خود فراہم کیا گیا وقت ہے جب وہ اپنی کالونیاں بنا لیں۔

بغیر اس فنکشن کے ممالیہ کے بچے کیسے یہ کمیونیٹی ٹھیک بنا پاتے ہیں؟ یہ کام ماں کے دودھ کا ہے۔ ماں کا دودھ اینٹی باڈیز سے بھرپور ہوتا ہے جو ٹھیک طریقے سے آبادی کنٹرول کر سکتی ہیں۔ جب چوہوں کے ساتھ امیونولوجسٹ شارلٹ کاٹزل نے منتخب اینٹی باڈیز روک کر دودھ پلانے کا تجربہ کیا تو اس کا نتیجہ پیٹ کی بیماریوں میں نکلا۔ وجہ؟ کئی بیکٹیریا آنت کی دیوار پھلانگ گئے تھے اور لمف نوڈ تک پہنچ گئے تھے۔ اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کئی بے ضرر بیکٹیریا صرف اس وقت بے ضرر ہوتے ہیں جب وہ ٹھیک جگہ پر ہوں۔ یہ دودھ ان کو ٹھیک جگہ پر رکھنے میں مدد کرتا ہے۔

ممالیہ کے لئے ماں کا دودھ اس آبادی کو قابو میں رکھنا کا سب سے حیران کن طریقہ ہے۔ (تفصیل نیچے لنک سے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیکٹیریو فیج کیا ہیں
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post_19.html

دودھ
https://waharaposts.blogspot.com/2019/05/blog-post_4.html

اس کا پہلا حصہ
https://waharaposts.blogspot.com/2019/12/blog-post_10.html

امیون سسٹم پر
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post_76.html


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں