باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 10 دسمبر، 2019

جسم کے کھیت


ہمارے جسم میں جتنے خلیے ہیں، اس سے زیادہ جراثیم بھی لیکن یہ بورنگ سی زندگی نہیں، ایک زبردست ایکوسسٹم ہے، جو ہزاہا قسم کا ہے۔ (تفصیل نیچے لنک سے)

جسم میں چھوٹی زندگی کا سسٹم کسی زرعی نظام کی طرح ہے۔ جس طرح باڑیں اور رکاوٹیں لگا کر باغوں کی حدبندی کی جاتی ہے، پودوں کو کھاد فراہم کی جاتی ہے، زہریلی یا خطرناک جڑی بوٹیوں کو اکھاڑا جاتا ہے۔ ٹھیک درجہ حرارت، مٹی اور سورج کی روشنی کے مطابق پھر وہ اگتا ہے جو ہم اگانا چاہتے ہیں۔  جانداروں کے جسم میں بھی جراثیم کے ساتھ تعاون بھی اسی طرح کا ہے۔ جراثیم سے پارٹنرشپ بھی قواعد و ضوابط کے تحت ہوتی ہے۔

جسم کا ہر حصہ ایک بڑا مختلف طرح کا ماحول ہے۔ اپنی طرح کا درجہ حرارت، تیزابیت، آکسیجن کی سطح اور دوسرے فیکٹر یہ متعین کرتے ہیں کہ وہاں پر کیا اگے گا۔ انسانی آنتوں کو جراثیم کی جنت ہونا چاہیے۔ جہاں پر خوراک اور مائع کی آمد ہوتی رہتی ہے لیکن یہ ایک مشکل ماحول ہے۔ خوراک تیزرفتار ریلے سے یہاں پہنچتی ہے۔ جراثیم کو تیزی سے بڑھنا ہے یا پھر مالیکیولر لنگر ڈالنے ہیں تا کہ یہ یہں پر رہیں اور بہہ کر ختم نہ ہو جائیں۔ آنت ایک تاریک دنیا ہے۔ سورج پر انحصار کرنے والے جراثیم کا یہاں رہنا ممکن نہیں۔ یہاں پر آکسیجن بھی نہیں۔ اس وجہ سے آنتوں کے بیشتر مائیکروب این ایروب ہیں۔ یعنی آکسیجن کے بغیر ہی توانائی لیتے ہیں اور کچھ تو آکسیجن کے نہ ہونے کے اتنے عادی ہیں کہ آکسیجن والے ماحول میں فوت ہو جائیں گے۔

جلد پر ماحول بالکل ہی اور طرح کا ہے اور یہ بھی ایک جیسا نہیں۔ ٹھنڈے خشک صحرا جیسا کہ بازو۔ گرم نمی والے جنگل جیسا کہ بغلیں۔ جلد والے جراثیم کے پاس دھوپ آتی ہے لیکن الٹرا وائلٹ شعاعوں کے خلاف بھی ان کو دفاع کرنا ہے۔ آکسیجن یہاں پر موجود ہے اور جلد چونکہ تازہ ہوا سے رابطے میں رہتی ہے اس لئے یہاں پر جراثیم تمام کے تمام وہ ہیں جو ایروبک ہیں یعنی توانائی کے لئے آکسیجن کی ضرورت رکھتے ہیں۔ ہاں پسینے والے گوشوں میں این ایروبک مائیکروب بھی پائے جا سکتے ہیں جیسا کہ پرپیونی بیکٹریم ایکنیز۔ (وہ مائیکروب جن کی وجہ سے دانے نکل سکتے ہیں)۔  ہمارے پورے جسم میں فزکس اور کیمسٹری کے قوانین بائیولوجی کے ان بنڈلوں کی تراش خراش کرتے ہیں۔

جاندار ان حالات کو کنٹرول کرتے ہیں۔ کچھ جگہ پر خوش آمدیدی قالین بچھاتے ہیں اور کچھ کو ممنوعہ علاقہ قرار دیتے ہیں۔ ہمارا معدہ طاقتور تیزابیت رکھتا ہے جو زیادہ تر جراثیم کو یہاں سے دور رکھتا ہے، سوائے چند کے۔ اس میں ایچ پائیلوری جیسے سپیشلسٹ رہ سکتے ہیں۔

اس طرح کے حالات جسم میں زندگی کو کنٹرول کرتے ہیں لیکن یہ بہت اچھے فلٹر نہیں۔ ان کو ٹھیک ٹھیک کنٹرول رکھنے کے لئے کچھ اور کرنا ہے اور اس کا بہت ہی شاندار نظام جسم میں ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یاد رکھیں کہ جگہ ایک بڑی ضروری چیز ہے۔ ایک ہی جراثیم ایک جگہ پر مفید اتحادی ہو سکتے ہیں اور کسی اور جگہ پر پہنچ جائیں تو خطرناک دشمن۔ کئی جاندار ان کو ٹھیک جگہ پر رکھنے کے لئے باقاعدہ باڑیں لگاتے ہیں۔ کیڑوں کی بیس فیصد انواع ان کو سپیشل خلیوں کے اندر مقید رکھتی ہیں جن کو بیکٹیریوسائیٹ کہا جاتا ہے۔ کئی کیڑوں میں یہ خلیے دوسرے خلیوں کے بیچ میں ہوتے ہیں، کئی میں خاص اعضاء ہی بن جاتے ہیں جن کو بیکٹیریوم کہا جاتا ہے۔ جو کہ ان کیڑوں کی آنتوں سے نکلے ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد بیکٹیریا کو دوسرے ٹشو میں جانے سے روکنا ہے اور ان کی آبادی کنٹرول کرنا بھی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سئیریل ویول جو چاول اور دوسری اجناس کھاتا ہے، وہ اپنے جسم میں سوڈالس بیکٹیریا وہ کیمیکل بناتے ہیں جن سے یہ اپنا خول بناتا ہے۔ جب یہ بلوغت تک پہنچتا ہے اور اس کو خول کیلئے یہ مواد چاہیے تو یہ ان کے بڑھنے پر کنٹرول ڈھیلا کر دیتا ہے۔ یہ تعداد چار گنا ہو جاتی ہے۔ خول کے سیٹ ہو جانے کے بعد اس کو ان جراثیم ساتھیوں کی ضرورت نہیں ہوتی تو یہ ان کو مار دیتا ہے اور ان کو قید کرنے والے خلیوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ یعنی یہ اپنی ضرورت کے مطابق جراثیم کی پالتو آبادی کو بڑھا اور ختم کر لیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے جیسے ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کے لئے یہ کام زیادہ مشکل ہے۔ ہمارے پاس یہ انواع بہت زیادہ متنوع ہیں اور ہمیں یہ کام بغیر کسی خاص خلیوں کے کرنا ہے۔ یہ مائیکروب خلیوں کے اندر نہیں، ان کے آپس پاس رہتے ہیں۔ صرف آنت کے بارے میں سوچیں۔ ایک بہت ہی لمبی ٹیوب جو فولڈ ہوئی ہے اور اگر اس کو سیدھا رکھا جائے اور کھول لیا جائے تو ایک فٹبال سٹیڈیم کو ڈھک سکتی ہے۔ اس کے اندر کئی ٹریلین بیکٹیریا پائے جاتے ہیں اور اس عضو پر صرف ایپی تھلیل خلیے کی ایک تہہ ہے جو ان کو خون میں شامل ہو کر جسم کے دوسرے اعضاء تک پہنچنے سے روکتی ہے۔ یہ ایک غیرمحفوظ مقام ہو سکتا ہے۔ ہم سے بڑا مسئلہ سادہ آبی جانوروں کے لئے ہے۔ ان کو یہاں پر قید کیسے کیا جاتا ہے اور قابو کیسے رکھا جاتا ہے؟

اس کا فطرت کے پاس بہت ہی ہوشیار حل ہے۔ بلغم، وائرس، جراثیم کش سپرے اور پولیس۔ اور ہاں، ممالیہ جانداروں کے لئے دودھ بھی۔  
 (جاری ہے)




ہم میں آباد جہاں
https://waharaposts.blogspot.com/2019/04/blog-post_25.html

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں