باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 13 دسمبر، 2019

ہاتھی بھولتے کیوں نہیں؟

ہاتھی کی یادداشت مشہور ہے لیکن یہ جانور صرف چلتی پھرتی ہارڈ ڈسک نہیں۔ ہم ہاتھی کے بارے میں جتنا جانتے جا رہے ہیں، ہمیں معلوم ہو رہا ہے کہ ان کی یادداشت ان کی شاندار ذہانت کا صرف ایک پہلو ہے۔ یہ تخلیقی صلاحیت رکھنے والے، سوشل اور رحمدل جاندار ہیں۔

ہاٹھی اپنے ریوڑ کے ہر ممبر کو جانتے ہیں۔ اپنے تیس کے قریب ساتھیوں کو دیکھ کر یا خوشبو سے پہچان لیتے ہیں۔ یہ ہجرت کرتے وقت یا پھر دشمن ہاتھیوں کے گروپ سے مڈبھیڑ میں کارآمد رہتا ہے۔ یہ خطرے کی علامات بھی یاد رکھ لیتے ہیں اور بڑی معمولی جزئیات کی تفریق کر سکتے ہیں۔ لمبے سفر میں جن اہم مقامات سے گزرے ہوں، ان کو اگلے سفر میں یاد رہتے ہیں۔ لیکن یادداشت کا زیادہ دلچسپ حصہ وہ ہے جس کا تعلق بقا سے نہیں۔

ہاتھی نہ صرف اپنے ریوڑ کے ممبران کو پہچان لیتے ہیں بلکہ ان مخلوقات کو بھی جنہوں نے ان کو زیادہ متاثر کیا ہو۔ ایک کیس میں سرکس کے دو ہاتھی جنہوں نے تھوڑا ہی عرصہ ایک دوسرے کے ساتھ گزارا تھا، جب 23 سال بعد ملے تو دونوں نے ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔ یہ پہچان صرف اپنی نوع تک محدود نہیں۔ جن انسانوں کے ساتھ انہوں نے تعلق بنایا ہو، ان کو یہ کئی دہائیوں بعد بھی پہچان لیتے ہیں۔ یہ دکھاتا ہے کہ ان کی یادداشت صرف کسی سٹیمولس کو ریسپانس دینے سے زیادہ ہے۔ اگر ہم ان کے سر میں جھانک کر دیکھیں تو پتا لگ جاتا ہے کہ کیوں۔

خشکی پر رہنے والے کسی جاندار میں سے ہاتھی کا دماغ سب سے بڑا ہے۔ جسم اور دماغ کے وزن کا تناسب بھی اچھا ہے۔ ان کا ای کیو چمپینزی کے قریب قریب ہے۔ اور اگرچہ انسان اور ہاتھی میں ارتقائی لحاظ سے بڑی دوری ہے لیکن کنورجنٹ ایوولیوشن کی وجہ سے ان کے دماغ کا سٹرکچر انسان سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ہپوکیمپس اور سیریبرل کورٹیکس بہت زیادہ ڈویلپڈ ہے اور ان حصوں میں اتنے ہی نیورون اور سائنیپس ہیں جتنے انسان میں۔

ہپوکیمپس کا تعلق جذبات سے ہے۔ یہ زندگی کے اہم واقعات کو طویل مدتی یادداشت میں  کوڈ کرتا ہے۔ کسی چیز کو اہمیت کے مطابق گریڈ کرنا وہ صلاحیت ہے جس کی وجہ سے ہاتھی کی یادداشت ایڈاپٹ کرنے والی اور پیچیدہ شے ہے اور محض یادداشت کی مشین نہیں۔ یہ وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے ایسا ہاتھی جس نے کم عمری میں خشک سالی دیکھی ہو، وہ بڑا ہو کر خشک سالی کی علامات کو پہلے پہچان سکتا ہے۔ اس کی وارننگ دیکھ کر فیصلے لے سکتا ہے۔ یہ وہ وجہ ہے کہ ہاتھیوں کے ایسے گروہ جن کی قیادت زیادہ عمر والی ہتھنیوں کے پاس ہو، وہ زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔ ان کی بدقسمتی، کہ یہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے ہاتھی ان چند جانداروں میں سے ہے جو پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔ اپنے ساتھیوں سے جدائی ہاتھی کا دل توڑ دیتی ہے۔

دوسری طرف سیریبرل کورٹیکس کی وجہ سے پرابلم حل کر سکتا ہے اور تخلیقی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ آپس میں تعاون سے بھی مسائل حل کر سکتے ہیں۔ کئی بار یہ تحقیق کرنے والوں کو بھی مات دے دیتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کو بھی دھوکا دے جاتے ہیں۔ بنیادی ریاضی کی پہچان رکھتے ہیں۔ دو بالٹیوں میں پھلوں کی تعداد کم کس میں ہے اور زیادہ کس میں، اس کے باریک فرق کو بھی گن لیتے ہیں۔ یادداشت اور پرابلم حل کرنے کی صلاحیت کے ملاپ کی وجہ سے ان کی طرف سے ہوشیاری کے دلچسپ مظاہرے سامنے آتے ہیں۔ لیکن ان کی ذہنی دنیا کی کئی چیزیں ان سے بھی دلچسپ ہیں جو ہم ابھی جاننا شروع ہوئے ہیں۔

ہاتھی اپنی آواز اور اشاروں سمیت کئی طریقوں سے ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ اس میں انفراساوٴنڈ چنگھاڑ بھی ہے جو کم فریکوئنسی کی وجہ سے کئی کلومیٹر دور تک پہنچ جاتی ہے۔  ان کی کمینونیکیشن میں ساخت سمجھنے کی صلاحیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی اپنی زبان اور گرائمر ہو سکتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ زبان کی یہ سینس سادہ رابطوں سے زیادہ ہو۔ جب ہاتھی آرٹ بناتے ہیں تو رنگ اور عناصر کی کمبی نیشن کو طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ موسیقی کی بارہ ٹونز کو الگ شناخت کر سکتے ہیں اور واپس دہرا سکتے ہیں۔ لیکن ان کی ایک اور صلاحیت ہے جو ان کی ہوشیاری سے بھی زیادہ اہم ہے۔ یہ ان کی ہمدردی، ایثار اور انصاف کی حس ہے۔

یہ اپنے مر جانے والوں کا غم مناتے ہیں۔ ان کو دفن کرنے کی رسومات کرتے ہیں اور بعد میں واپس قبر پر جاتے ہیں۔ انسان کے علاوہ ایسا کرنے والے یہ واحد جاندار ہیں۔ یہ دوسری انواع کے بارے میں بھی پرواہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ باربرداری کے لئے استعمال ہونے والے ایک ہاتھی نے ایک شہتیر کو ایک سوراخ میں ڈالنے سے انکار کر دیا۔ جب بار بار کہنے پر بھی اس نے یہ اٹھائی رکھا تو اس سوراخ میں دیکھا گیا۔ وہاں پر ایک کتا سویا ہوا تھا۔ ہاتھی نے اپنے مہاوت کی حکم عدولی کی اور یہ بوجھ خود اٹھائی رکھا۔ صرف اس لئے کہ کہیں اس کتے کو گزند نہ پہنچ جائے۔

زخمی انسانوں کی حفاظت کیلئے کھڑے ہونا اور اس دوران ان کو اپنی سونڈ سے سہلانا بھی ہاتھیوں کی عادات میں ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہاتھیوں کے گاوٗں پر حملے اس سے فوراً بعد ریکارڈ کئے گئے ہیں جب ہاتھیوں کو مارا گیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جان کر لیا جانے والا انتقام ہو سکتا ہے۔

جب ہم ان سب شواہد کو دیکھیں اور یہ بھی کہ ہاتھی آئینے میں خود کو پہچان سکتے ہیں تو اس سے انکار مشکل ہو جاتا ہے کہ ہاتھی باشعور، ذہین اور جذبات رکھنے والی مخلوق ہیں۔ انسانوں کا ان سے سلوک مثال نہیں رہا۔ یہ مشکلات کا شکار ہیں۔ امید ہے کہ فطرت کے یہ عظیم شاہکار، فطرت کے اس عظیم کینوس سے کہیں غائب نہ ہو جائیں۔ 

اس کا متن یہاں سے
https://youtu.be/lSXNqsOoURg

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں