باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 2 دسمبر، 2019

روز کا پاگل پن



کل میں جس کیفیت کا شکار ہو گیا تھا اس کو صریح پاگل پن ہی کہا جا سکتا ہے۔ اگر آپ اس پر شک کا اظہار کریں تو میں اس کی پانچ وجوہات پیش کروں گا۔

مجھے وہ چیزیں نظر آ رہی تھیں جو موجود ہی نہیں تھیں، وہ سنائی دے رہا تھا، جو کوئی کہہ ہی نہیں رہا تھا۔
میں ان چیزوں کو سچ سمجھ رہا تھا جن کا ہونا ممکن ہی نہیں۔
مجھے وقت، جگہ اور اشخاص کے بارے میں کنفیوژن تھی۔
میری جذباتی کیفیت میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی تھیں۔
مجھے پر بیتے تجربات میری یادداشت سے محو ہو گئے ہیں۔ ( اور شکر ہے کہ ایسا ہوا)۔

Hallucination, Delusion, Disorientation, Affectively Labile, Amnesia

یہ پانچوں کیفیتیں مجھ پر طاری تھیں۔ اور آج یہ پھر میرے ساتھ ہو گا اور آپکے ساتھ بھی۔ میں خواب دیکھ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اس بارے میں ہمیں اب ہی کچھ معلوم ہونا شروع ہوا ہے لیکن دماغ کی یہ حالت جو ریم نیند کہلاتی ہے اور اس کے ساتھ ہونے والے یہ ذہنی تجربات جس کو خواب کہا جاتا ہے، نہ صرف نارمل بائیولوجیکل اور نفسیاتی حالتیں ہیں بلکہ انتہائی ضروری بھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں کھوپڑی پر الیکٹروڈ رکھ کر کی جانے والی ریکارڈنگ سے سائنسدانوں کو پہلی بار دماغ میں حالتِ خواب جاری ایکٹیویٹی کا اندازہ ہونا شروع ہوا۔ لیکن اس دوران دماغ کی تھری ڈائمنشنل تصویر بنانے کیلئے ہمیں اکیسویں صدی میں دماغ کے امیج والی مشینوں کا انتظار کرنا پڑا۔ اور یہ شاندار مناظر اس قابل تھے کہ ان کے لئے اتنا طویل انتظار کیا جائے۔

اس سے ہونے والے بریک تھروز سے سگمنڈ فرائیڈ کے خیالات غلط ثابت ہو گئے جن کا تعلق نامکمل خواہشات سے تھا۔ ایک صدی تک یہ سائیکولوجی اور سائیکیٹری پر چھائے رہے تھے۔ فرائیڈ کی تھیوری میں کچھ اچھی باتیں تھیں، لیکن ان میں گہری کمزوریاں تھیں۔ ریم نیند کی نیوروسائنسی نگاہ سے ہم سائنسی لحاظ سے ٹیسٹ ایبل تھیوریز دینے کے قابل ہو گئے ہیں کہ ہم خواب کیسے دیکھتے ہیں۔ کس چیز کے بارے میں دیکھتے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ کیوں دیکھتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب ہم الیکٹروڈ کے ذریعے دماغ کی ایکٹیویٹی کو دیکھتے ہیں تو یہ ایک شور سنائی دیتا ہے، جیسا کہ کسی سٹیڈیم میں تماشائی اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہوں اور یہ نہیں پتا لگتا کہ کونسی آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ کونسا حصہ خاموش ہے اور کس سٹینڈ سے اونچے نعرے لگ رہے ہیں۔ لیکن ایم آر آئی سکینر اس سٹیڈیم کو ہزاروں حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے جن میں ایکٹیویٹی کی پیمائش الگ الگ کی جا سکتی ہے اور اس سب ایکٹیویٹی کی تھری ڈی تصویر بن سکتی ہے یعنی دماغ کے درمیان میں کیا ہو رہا ہے۔ اوپر، نیچے کیا چلا رہا ہے۔ پہلی بار ان گہرے سٹرکچرز تک پہنچنا ممکن ہوا جو پہلے چھپے ہوئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب خواب شروع ہوتا ہے تو ایم آر آئی سکین دکھاتا ہے کہ کئی جگہ روشنیاں جل اٹھیں۔ چار ایسے حصے ہیں جہاں پر زیادہ ایکٹیویٹی ہے۔ دماغ کے پیچھے بصری حصوں میں، جن سے ہم دیکھ سکتے ہیں۔ موٹر کورٹیکس میں، جو حرکات کرنے والا حصہ ہے۔ یپوکیمپس اور آس پاس کے علاقے میں جو شخصی یادداشت سے متعلق ہے۔ اور دماغ کے گہرے جذباتی مرکز امگڈالا اور سنگولیٹ کورٹیکس،  جو جذبات کو پیدا اور پراسس کرتے ہیں۔ خواب کی حالت میں جذباتی حصوں میں ہونے والی ایکٹیویٹی جاگنے والی حالت کے مقابلے میں تیس فیصد زیادہ ہوتی ہے!

ایک اور حیران کن چیز یہ تھی کہ دماغ کے کچھ حصے تو جیسے بند پڑے ہوتے ہیں۔ خاص طور پر دائیں اور بائیں اطراف کے پری فرنٹنل کارٹیکس۔ یہ وہ حصہ ہے جو دماغ کے چیف ایگزیکٹو کا کام کرتا ہے۔ سوچ کو ترتیب دیتا ہے اور منطقی رکھتا ہے۔

خواب کو ہم ایسی حالت کہہ سکتے ہیں جہاں حرکت، جذبات، بصارت اور یادداشت تو ایکشن میں ہیں لیکن منطق کا خاص دخل نہیں۔ اب ہم خواب کی دنیا کو قریب سے جانچنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ خواب میں جذبات کی شدت ہے یا دوڑ بھاگ زیادہ ہے۔ لیکن کیا ہم خواب کی نیچر سے بڑھ کر یہ بتا سکتے ہیں کہ خواب کس بارے میں ہے؟ (کوئی خاتون ہیں یا گاڑی ہے یا پھر کھانے کی چیزیں نظر آ رہی ہیں)۔

جاپان میں 2013 میں ڈاکٹر یوکی یاسو کامی ٹانی کی تحقیقاتی ٹیم نے اس کوڈ کو پہلی بار کھولا اور ہمیں ایک مشکل ایتھیکل مقام پر لے گئے ہیں۔ یہ صرف تین افراد پر کیا گیا اور نتائج ابتدائی شکل میں ہیں۔ اس میں ان افراد کے کئی روز تک ایم آر آئی سکین کئے گئے۔ جب یہ سو جاتے تھے تو خواب کے بعد ان کو جگا کر پوچھا جاتا تھا کہ انہوں نے کیا دیکھا۔ خواب کی یہ رپورٹ لی جاتی تھی۔ “میں نے ایک بڑا کانسی کا مجسمہ دیکھا، میں ایک چھوٹی پہاڑی پر تھا اور نیچے گھر، سڑکیں اور درخت تھے”۔ 

اس طرح کی رپورٹس اکٹھی کر کے اس کی بیس کیٹکریاں بنائی گئیں جس کے خواب عام طور پر آتے تھے۔ گاڑیاں، کتابیں، فرنیچر، کمپیوٹر، مرد، خواتین، کھانا۔ ان رپورٹس سے اندازہ ہو جاتا تھا کہ ایک شخص کی ان موضوعات پر برین ایکٹیویٹی کیسی رہتی ہے۔ اس کو ٹیسٹ کرنے کیلئے جاگتی حالت میں ایسی تصاویر دکھائی گئیں اور پھر یہ ایکٹیویٹی دیکھی گئی کہ کیا یہ ویسے ہی ہے۔ یہ کام کسی جرم والے منظر میں ڈی این اے کی ٹیسٹنگ جیسا تھا۔

اس سب کو دیکھ کر سائنسدان اس قابل ہو گئے کہ ایم آر آئی کی تصویر دیکھ کر یہ بتا دیتے تھے کہ سونے والا خواب میں کسی مرد، کسی خاتون، کتے، بستر، پھول یا چاقو کے بارے میں دیکھ رہا ہے۔ وہ اس شخص کا ذہن پڑھ رہے تھے۔

یہ پرفیکٹ تو نہیں لیکن کامیابی کا تناسب اچھا رہا۔ اور اس سے یہ نہیں پتہ لگ سکتا تھا کہ کونسی والی خاتون خواب میں ہیں۔ لیکن یہ پتا لگ سکتا تھا کہ خواب میں کمپیوٹر گیم نہیں کھیلی جا رہی۔ اسے خواب ڈی کوڈ کرنے کا پہلا قدم کہا جا سکتا ہے۔ اس نالج سے کئی دماغی امراض میں مدد مل سکتی ہے۔ خاص طور پر ٹراما کی صورت میں آنے والے ڈراوٗنے خوابوں میں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک تنگ کرنے والا علاقہ ہے۔ اپنے خواب ایک بڑی ہی پرائیویٹ چیز رہی ہے۔ ہمارا اپنا انتخاب رہا ہے کہ ہم کس خواب کو شئیر کریں اور کس کو نہیں۔ اس تجربے میں لوگوں نے اپنی رضامندی دی تھی۔ لیکن کیا یہ کبھی سائنس سے بڑھ کر فلسفے اور ایتھکس کے علاقے میں پہنچ جائے گا؟ کیا ہم مستقبل قریب میں خواب کو اچھی طرح ڈی کوڈ کر سکیں گے؟ ایسے عمل کو جس پر، ماسوائے ایک بہت چھوٹی اقلیت کے، ہمیں خود کوئی اختیار نہیں؟ اور جب یہ ہو جائے گا تو کیا خواب دیکھنے والے کو اس کے خواب کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ کیا اس طریقے سے اس کی شخصیت کے بارے میں قیاس آرائی کرنا لگانا ٹھیک ہو گا؟ کیونکہ یہ تو ایک ایسا عمل ہے جس کا شعوری طور پر آرکیٹکٹ وہ خود نہیں؟ اور اگر وہ نہیں، تو پھر کون؟ یہ کچھ مشکل سوالات ہیں جن کا سامنا ہمیں کرنا پڑ سکتا ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں