باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 2 دسمبر، 2019

دکھ کا مرہم



ایک بلب کئی اشیاء سے مل کر بنتا ہے۔ شیشے کا کور، تار کی کوائل جو اس کے بیچ میں ہوتی ہے، برقی رابطہ جو اس کے نیچے لگا ہوا ہے۔ اس کا مقصد روشنی پیدا کرنا ہے۔ لیکن جب یہ روشنی پیدا کرتا ہے تو ساتھ حرارت بھی دیتا ہے۔ اس کو بنانے کی وجہ اس سے حرارت لینا نہیں تھا۔ لیکن جب بھی روشنی اس طریقے سے پیدا کی جائے تو حرارت تو ملے گی۔ حرارت اس کا بائی پراڈکٹ ہے، نہ کہ اصل فنکشن۔ اس کو ایپی فینامینا کہا جاتا ہے۔ بڑی مدت تک سائنس میں یہ خیال رہا کہ خواب ایپی فینامینا ہیں۔

دماغ کے نیورل سرکٹس جو ریم نیند پیدا کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے وہ فنکشن سرانجام پاتے ہیں جو اس نیند کے ساتھ خاص ہیں تو انسانی ذہن ان کے ساتھ ایک اور شے بھی پیدا کرتا ہے جو خواب ہیں۔ بغیر کسی مقصد اور نتیجے کے ہونے والا یہ تجربہ کیا محض دماغ میں ہونے والی اس ایکٹیویٹی کا بائی پراڈکٹ ہے؟ اس کو ٹیسٹ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اگر صرف ریم نیند کافی ہے اور خواب ایک اپیی فینامینا ہیں تو پھر خواب میں کیا دیکھا گیا؟ اس کا نیند میں ہونے والے فائدے پر اثر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر خواب میں ہونے والے تجربات کا کوئی فائدہ ثابت کیا جا سکے تو ان کے ایپی فینامینا ہونے کا خیال مسترد ہو جائے گا اور ہم یہ تسلیم کر لیں گے کہ یہ نیند کا ضروری حصہ ہیں اور ریم نیند کے ساتھ خود اپنے اندر فائدہ رکھتے ہیں۔

اس فریم ورک کو استعمال کرتے ہوئے ہم جب خوابوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں ان کے دو طرح بنیادی فوائد جلد ہی نظر آ جاتے ہیں۔ اور نہ صرف ریم نیند ضروری ہے بلکہ ریم نیند کافی نہیں، خواب بھی ضروری ہیں۔ یہ بلب کی حرارت کی طرح نہیں۔

ان کا پہلا فائدہ ہماری جذباتی اور ذہنی صحت کو ٹھیک رکھنا ہے۔ دوسرا فائدہ پرابلم حل کرنے میں اور تخلیقی صلاحیت میں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہا جاتا ہے کہ وقت ہر زخم  کو مندمل کر دیتا ہے۔ اس محاورے میں کچھ ترمیم کی ضرورت ہے۔ یہ کام وقت نہیں، ریم نیند کرتی ہے۔ یہ رات میں ہونے والی سائیولوجیکل تھراپی ہے۔ مشکل یا ٹرامہ والے واقعات کی تلخی کا زہر بھی نکال دیتی ہے۔جذباتی واقعات کے حل کا موقع فراہم کرتی ہے۔

نیند کے اس وقت میں سٹریس کیمیکل نورایڈرنالین مکمل طور پر آف ہو جاتا ہے اور یہ چوبیس گھنٹے میں واحد موقع ہے جب ایسا ہوتا ہے۔ یہ کیمیکل دماغ کی ایڈرنالین ہے۔ اس وقت میں دماغ کا جذباتی سنٹر آن ہوتا ہے۔ امگڈالا، ہپوکیمپس اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں لیکن اہم سٹریس کیمیکل غائب ہوتا ہے۔ اس حالت میں اہم اور خاص تجربات کو یاد رکھنے کا کام بھی چل رہا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ منسلک جذبات کو اس سے الگ کرنے کا بھی۔

اپنے بچپن کا کوئی واقعہ ذہن میں لائیں جو اچھی طرح یاد ہو۔ آپ جلد ہی نوٹ کریں گے کہ وہ واقعات جو جذباتی نوعیت کے تھے، ان کی یادداشت سب سے مضبوط ہو گی اور خاص طور پر وہ جو خوفزدہ کرنے والے ہوں۔ کسی بازار میں والدین سے بچھڑ گئے ہوں، سڑک پر سائیکل کسی گاڑی سے ٹکراتے ٹکراتے بچا ہو۔ لیکن ایک اور چیز جو نوٹ کریں گے، وہ یہ کہ ان کو ذہن میں لاتے وقت جذبات ویسے نہیں۔ یعنی اہم تجربات کو آپ بغیر کسی جذباتی ساز و سامان کے، آسانی اور مضبوطی سے یاد رکھے ہوئے ہیں۔ یاد رکھنا اور ساتھ ہی ان کے ساتھ اس جذباتی بیگج کو الگ کر دینا، دونوں ہی ضروری تھے۔ اگر یہ کام ریم نیند میں نہ ہوئے ہوتے تو ہمارا ماضی ایک مسلسل بے چینی یا خوف بھری یادوں کی آپ بیتی ہوتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس تھیوری پر تجربہ کرنے کے لئے کچھ صحت مند نوجوانوں کا انتخاب کیا گیا اور ان کو دو گروپس میں تقسیم کیا۔ انکو جذباتی کر دینے والی تصاویر دکھائی گئیں اور اس دوران دماغ کی کنڈیشن کی تصاویر، بذریعہ ایم آر آئی، ریکارڈ کی گئیں۔ بارہ گھنٹے بعد ان کو دوبارہ سکینر لگا کر ان کو وہی تصاویر دکھائی گئیں اور ریسپانس دیکھا گیا۔ ایک گروپ نے یہ کام پہلے صبح کیا تھا اور پھر شام کو، دوسرے گروپ نے یہ کام پہلے شام کو کیا تھا، پھر صبح کو۔ دونوں میں فرق درمیان کی نیند کا تھا۔ اس طریقے سے دونوں گروپس کی ایم آر آئی ایکٹیویٹی کو مانیٹر کر کے فرق معلوم کیا جا سکتا تھا۔

جو گروپ اس درمیان میں سویا تھا، ان کا جذباتی ریسپانس، جو انہوں نے خود بتایا، دوسرے کے مقابلے میں خاصا کم تھا۔ ایم آر آئی سکین بھی ان کی بات کی تصدیق کر رہا تھا کہ امگڈالا کی ایکٹیویٹی بہت کم تھی۔ منطقی سنٹر پری فرنٹنل کارٹیکس درمیان میں بریک کا کام کر رہا تھا۔ جو لوگ نہیں سوئے تھے، ان کا ریسپانس پہلی بار والا ہی تھا۔ اتنا ہی مضبوط اور منفی۔

سونے گروپ کی نیند کی ایکٹیویٹی بھی ریکارڈ کی گئی تھی تا کہ معلوم کیا جا سکے کہ نیند کا کونسا حصہ ہے جو اس کی پیشگوئی کر سکتا ہے کہ جذباتی ریسپانس میں کمی آئے گی۔ یہ خواب والا حصہ تھا جو سٹریس کی برین کیمسٹری پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتا تھا۔ کس نے اس حصے میں رات کو وقت زیادہ گزارا؟ یہ سب سے قابلِ اعتبار طریقے سے پیش گوئی کر دیتا تھا کہ کس کا جذباتی ریسپانس کیسا ہو گا۔ نیند اور خاص طور پر ریم نیند ہماری جذباتی زخموں پر مرہم لگانے کا کام کرتی ہے لیکن کیا خواب کا اس میں کوئی حصہ ہے؟ اس سوال کا جواب پانے کیلئے رش یونیورسٹی کی ڈاکٹر روزالن کارٹ رائٹ نے بہت خوبصورت کام کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر کارٹ رائٹ کا خوابوں پر تحقیق پر بہت اہم کام ہے۔ انہوں نے خواب کے مندرجات کا اور ڈیپریشن کے تعلق کو سٹڈی کیا۔ ایسے لوگ جن کی زندگی میں ناخوشگوار تجربہ ہوا ہو، مثلاً تلخ طلاق، ان کے اس جذباتی ٹرامہ کے قریب انہوں نے روزانہ کی خوابوں کی رپورٹیں اکٹھی کرنا شروع کیں۔ اس میں سے پیٹرن کی تلاش کرنے لگیں۔ کیا خواب کے مندرجات کا کوئی تعلق ان کی روزمرہ زندگی سے بنتا ہے؟ اس کے لئے انہوں نے ان لوگوں سے ایک سال تک فالو اپ کیا۔ کونسے لوگ ہیں جن کا ڈیپریشن اور بے چینی جلد ٹھیک ہو گیا، کون ہیں جن کا دیر تک برقرار رہا۔

پبلی کیشنز کی ایک سیریز، جس کو پڑھ کر اس باریک بینی کی تعریف ہی کی جا سکتی ہے، سے کارٹ رائٹ نے دکھایا کہ وہ لوگ جن کو اس وقت خواب اپنے تکلیف دہ تجربات سے متعلق آ رہے تھے، وہ جلد ریکور کر گئے۔ جبکہ وہ جن کے خواب اس متعلق نہیں تھے، وہ اس بارے میں منفی جذبات کا شکار رہے۔ کارٹ رائٹ کی تحقیق دکھاتی ہے کہ محض ریم نیند کافی نہیں، محض عام خواب کافی نہیں، ان کے مریضوں کو خاص طرح کے خواب درکار تھے تا کہ وہ اپنی زندگی کے واقعات پر قابو پا سکیں۔ یعنی نہ صرف خواب ضروری تھے بلکہ خواب میں کیا دیکھا، یہ بھی اہم تھا۔

کسی ٹراما کے بعد ڈراوٴنے خواب کیوں؟ اس کی وجہ یہ کہ دماغ اس واقعے کو کسی طرح سے تشکیل دیتا ہے، اگر اس کے گرد تلخی الگ نہیں کی جا سکتی تو وہ اس کو بار بار ری پلے کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوسٹ ٹراما سٹریس ڈس آرڈر کا شکار وہ لوگ ہو جاتے ہیں، جن کا دماغ اس دوران سٹریس کیمیکل نورایڈرنالین کو بند نہیں کر پاتا۔ اور جذبات کی تلخی الگ نہیں ہوتی۔ کیا یہ سوئچ بند کرنے کا کام ادویات کے ذریعے کیا جا سکتا ہے تا کہ مریض کو خوابوں کا مرہم مل سکے؟

اس پر ڈاکٹر مرے راسکنڈ، جو سابق فوجیوں کا علاج کرتے ہیں، ان کو اتفاقی طور پر کامیابی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے والی ایک دوا کے ذریعے ہوئی ہے۔ اس کے کلینیکل ٹرائل ہو رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خواب صرف جذبات کنٹرول کرنے کا کام ہی نہیں کرتے۔ ان کا ایک بڑا فائدہ سوشل مہارت، مسائل کو حل کرنے اور تخلیقی صلاحیت میں ہے۔ 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں