باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 5 دسمبر، 2019

آخری فوجی ۔ اچھی زندگی کا انتخاب

دس سال سے جاری جنگِ عظیم کا پانسہ پلٹ چکا تھا۔ جاپانی، جو ایک وقت میں ایشیا کے بڑے حصے پر قابض تھے، اب ان کو پسپائی کا سامنا تھا۔ ان کی معیشت تباہ ہو چکی تھی۔ ایک کے بعد الگ جزیرے پر امریکی فوج قبضہ کرتی جا رہی تھی۔ شکست سامنے نظر آ رہی تھی۔ 26 دسمبر 1944 کو جاپانی امپرئیل آرمی نے سیکنڈ لیفٹیننٹ ہیرو اونوڈا کو ایک مشن سونپا۔ ان کو فلپائن کے جزیرہ لوبانگ میں جانا تھا۔ امریکی فوج کی پیش قدمی میں رکاوٹ ڈالنا تھی۔ ان کو ہدایت دی گئی کہ کچھ بھی ہو جائے، ہتھیار نہیں ڈالنے۔ لڑائی جاری رکھی ہے۔ ان کو اور ان کے کمانڈر کو پتا تھا کہ یہ موت کا مشن ہے۔ وہ اس سے واپس نہیں آئیں گے۔

فروری 1945 کو امریکی فوج لوبانگ پہنچ گئی۔ چند ہی روز میں زیادہ تر جاپانی فوجی مارے گئے یا انہوں نے ہتھیار ڈال دئے۔ یہ جزیرہ جاپان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ لیکن اونوڈا اور ان کے ساتھ تین فوجی جنگل میں چھپ کر بچنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہاں سے انہوں نے امریکی فوجیوں اور مقامی آبادی کے خلاف گوریلا جنگ شروع کر دی۔ ان کے ہتھیار چرا لیتے، کسی بھولے بھٹکے فوجی کو مار دیتے۔ جو نقصان جس طرح ممکن ہوتا، ویسے پہنچاتے۔

اس سال اگست میں تاریخِ انسانی کا یہ ہولناک ترین باب ہیروشیما اور ناگاساکی کے اوپر برسنی والی تباہی کے بعد اپنے ڈرامائی اختتام کو پہنچا۔ بحرالکاہل کے جزائر میں ابھی ہزاروں جاپانی فوجی بکھرے ہوئے تھے، اس سے بے خبر کہ جنگ ختم ہو چکی ہے۔ یہ لڑتے رہے۔ مشرقی ایشیا میں ان کی لڑائی ان ممالک کے لئے مسئلہ تھی۔ کچھ کئے جانا ضروری تھا۔

امریکی فوج نے جاپانی حکومت کے ساتھ مل کر ان جزائر کے اوپر ہزارہا پمفلٹ گرائے کہ جنگ ختم ہو گئی۔ اب گھر جانے کا وقت ہے۔ دوسروں کی طرح یہ اونوڈا تک بھی پہنچے لیکن دوسروں کے برعکس اونوڈا نے ان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کو دیکھ کر فیصلہ کیا کہ یہ جعلی ہیں اور امریکیوں کو بچھایا گیا جال ہے تا کہ گوریلا جنگجووٗں کو پکڑا جا سکے۔ ان کو جلا دیا اور لڑائی جاری رکھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانچ برس گزر گئے۔ یہ پمفلٹ پھینکے جانا بھی ختم ہو چکا تھا۔ امریکی افواج واپس اپنے ملک جا چکی تھیں۔ لوباننگ کی مقامی آبادی واپس معمولاتِ زندگی کی طرف جانا چاہ رہی تھی۔ مچھلیاں پکڑنے، چاول اگانے جیسے معمولات تک۔ اونوڈا اور ان کے ساتھی موقع ملنے پر ان کے کھیتوں میں آگ لگا دیتے تھے۔ ان کے جانور چرا لیتے تھے۔ اور جو مقامی اس جنگل میں دور تک نکل جائے، اس کو مار دیتے تھے۔

اب فلپائنی حکومت نے ان سے ہتھیار ڈلوانے کی کوشش کی۔ انہوں نے جنگل میں اشتہارات پھینکے کہ جاپانی ہار گئے ہیں، جنگ بند ہو گئی ہے۔ ان کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔

جاپانی حکومت نے 1952 میں ایک اور کوشش کی۔ اس بار ان کی فیملی سے خطوط لکھوائے گئے، ان کی تصاویر لی گئیں، بادشاہ سے نوٹ لکھوایا گیا اور اس کو پھینکا گیا۔ اونوڈا نے اس کو بھی حقیقی ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کو بھی امریکیوں کی چال قرار دیا۔ بحرالکاہل کے اس جزیرے پر ان کے لئے جنگ جاری رہی۔

کچھ اور سال گزر گئے۔ یہاں کے مقامیوں نے اپنے آپ کو مسلح کر لیا کہ ان سے مقابلہ کر سکیں۔ 1959 تک اونوڈا کے ایک ساتھی مارے جا چکے تھے، ایک نے ہتھیار ڈال دئے تھے۔

اگلی دہائی گزر گئی۔ اونوڈا کے آخری ساتھی کوزوکا کھیت کو آگ لگانے کی کوشش میں گولی کا نشانہ بن گئے۔ اب اونوڈا اکیلے رہ گئے تھے۔ 1972 میں کوزوکا کی موت کی خبر جاپان پہنچی اور یہ بڑی خبر بنی۔ جاپانیوں کا خیال تھا کہ سب فوجی برسوں پہلے واپس آ چکے ہیں۔ جاپانی میڈیا پر قیاس آرائی ہونے لگی۔ اگر کوزوکا 1972 تک لڑتے رہے تھے تو کیا پتا اونوڈا بھی ابھی زندہ ہوں۔ اونوڈا کی شہرت اس جزیرے پر کچھ حقیقت، کچھ افسانہ اور کسی بھوت کی طرح ہو چکی تھی۔ لوگوں نے سنا تھا، حرکتیں دیکھی تھیں، اس شخص کو کبھی نہیں۔ سرچ پارٹی بھیجی گئی، اونوڈا نہیں ملے۔

اونوڈا جاپان میں ایک کہانی بن چکے تھے۔ کچھ کے لئے رومانوی۔ کچھ کے لئے خبطی۔ کچھ کے لئے دیومالائی کہانی۔ اس وقت ایک مہم جو نوجوان نوریو سوزوکی نے ان کو تلاش کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ سوزوکی خود ایک آزاد منش اور کچھ خبطی آوارہ گرد تھے جن کا کام ایڈونچر تلاش کرنا تھا۔ اکیلے ہی لوبانگ پہنچ گئے۔ جنگل میں گھومتے اور اونوڈا کو آوازیں دیتے کہ وہ شاہِ جاپان کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ چند روز میں سوزوکی نے اونوڈا کو ڈھونڈ نکالا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت تک اونوڈا ایک سال سے بالکل تنہا تھے۔ سوزوکی نے ان سے پوچھا کہ وہ ابھی تک کیوں لڑ رہے ہیں۔ اونوڈا نے جواب دیا کہ جب انہیں بھیجا گیا تھا تو حکم ملا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے، ہتھیار نہیں ڈالنے، لڑتے رہنا ہے۔ وہ حکم عدولی نہیں کر سکتے۔ تیس سال سے وہ دئے گئے ایک آرڈر کی تعمیل کر رہے تھے اور جب تک ان کے افسر کا آرڈر ہے، وہ واپس نہیں جائیں گے۔ سوزوکی ان کی تصاویر لے کر واپس جاپان چلے گئے۔

سوزوکی کی اس دریافت کے بعد اونوڈا کے کمانڈر تانی گوچی، جنہوں نے اونوڈا کو یہ مشن دیا تھا، باقاعدہ آرڈر لے کر 9 مارچ 1974 کو اونوڈا کے پاس آئے اور اونوڈا کو جاپان لے گئے۔ دوسری جنگِ عظیم کی تین دہائیوں کے بعد اونوڈا کے لئے جنگ ختم ہو گئی تھی۔ ساتھ لگی تصویر 11 مارچ 1974 کو لی گئی ہے جس میں اونوڈا اپنی فوجی تلوار فلپائن کے صدر مارکوس کے حوالے کر رہے ہیں۔






۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اونوڈا کہتے ہیں کہ انہیں اس چیز کا کوئی افسوس نہیں کہ وہ اس جزیرے پر کیوں لڑتے رہے۔ یہ ان کی غیرت کا تقاضا تھا۔ انہیں فخر ہے کہ انہوں نے جاپانی سلطنت سے اپنی وفاداری کی لاج رکھی۔ (وہ سلطنت جو موجود ہی نہیں رہی تھی)۔

جاپان واپسی کے بعد اونوڈا ایک ہیرو بن گئے۔ ایک ریڈیو شو کے بعد اگلا۔ سیاست دانوں سمیت ہر کوئی ان سے ہاتھ ملانے کو بے چین ہوتا۔ انہوں نے “میں ڈٹا رہا ۔ میری تیس سالہ جنگ” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ ان کو حکومت کی طرف سے خطیر رقم دی گئی۔

لیکن اونوڈا کی لئے ان کی نئی زندگی خوفناک تھی۔ جاپان بدل چکا تھا۔ صارفیں اور سرمایہ داروں کا معاشرہ بن گیا تھا۔ جس نسل میں وہ پروان چڑھے تھے، وہ غیرت اور قربانی کی اقدار رکھتی تھی۔ نیا جاپان تو ان اقدار کو پہچانتا بھی نہیں تھا۔ اونوڈا جس پرانے جاپان کی باتیں کرتے تھے۔ وہ دوسروں کو سنائی بھی نہیں دیتی تھیں۔ وہ نئے جاپان میں ایک شو پیس تھے نہ کہ ایک کلچرل مفکر۔ ایک ایسا شخص جو کسی میوزیم میں سجا ہو۔ ماضی کی ایک دلچسپ یادگار۔

اونوڈا ڈیپریشن کا شکار ہو گئے۔ یہ کیفیت ان پر پوری زندگی نہیں آئی تھی۔ جنگل میں زندگی جیسی بھی تھی، اس کے کچھ معنی تھے۔ یہ جاپان جہاں خواتین مغربی لباس پہنتی تھیں اور شہروں میں ہپی پھرتے تھے، یہ ایک کڑوی حقیقت تھی۔ ان کے تیس سالوں کی جدوجہد بے کار رہی تھی۔ اونوڈا کا جاپان گم چکا تھا۔ اس حقیقت نے ان کو جس طریقے سے زخمی کیا، ویسا کوئی گولی بھی نہ کر سکتی۔ انہوں نے زندگی ضائع کر دی تھی۔

مایوس ہو کر اونوڈا نے 1980 میں سامان باندھا اور جاپان چھوڑ دیا۔ ان کا انتقال برازیل میں ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہماری اقدار کیا ہیں؟ اہمیت کس کی ہے؟ زندگی کی ہر چیز کا دارومدار صرف اس پر ہے۔

کیا اچھی اور بری اقدار کا موازنہ کیا جا سکتا ہے؟ ہاں۔ اس کے لئے پیمانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اونوڈا کی اقدار کو دیکھیں تو ان کے لئے اعلیٰ ترین قدر جاپانی سلطنت سے مکمل وفاداری تھی۔ یہ انتہائی ناقص قدر تھی۔ اس کے لئے انہوں نے ایک دور دراز کے جزیرے میں اپنی زندگی ضائع کی۔ کیڑے اور کیچوے کھائے۔ مٹی میں سوئے۔ لوگوں کی فصلوں کو آگ لگائی۔ کئی معصوم شہریوں کے قتل کئے۔ انہوں نے اپنے اقدار کی پاسداری کی لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے لئے اقدار کے معاملے میں اچھا انتخاب نہیں کیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمام زندگی ہمیں مشکلات کا سامنا رہے گا، حل طلب مسائل رہیں گے۔ اقدار اپنے مسائل منتخب کرنے کا نام ہے۔ ہم اپنی اقدار کا انتخاب کر سکتے ہیں، ان پر نظرثانی کر سکتے ہیں۔ ٹھیک مسائل کا انتخاب اچھی زندگی کا انتخاب ہے۔



ہیرو اونوڈا کے بارے میں
https://en.wikipedia.org/wiki/Hiroo_Onoda

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں