باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 7 دسمبر، 2019

جاپان ۔ تبدیلی کا دور

صدیوں سے تنہا رہنے والے جاپان کو ایک سخت جھٹکا لگا تھا۔ ان کو مغربی طاقتوں کے آگے ہتک آمیز معاہدے کرنا پڑے تھے۔ تجارتی رعایتیں دینا پڑی تھیں۔ اپنی بندرگاہیں کھولنا پڑی تھیں۔ سب کو پتا تھا کہ کچھ بھی اب کی طرح نہیں چل سکتا۔ دنیا بدل چکی تھی اور جاپان اس کے لئے تیار نہیں تھا۔ مطلق العنان حکمران شوگن کو حکمتِ عملی طے کرنے کے لئے اب لوگوں سے بات کرنی پڑی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا کے نقشے میں جاپان اور برطانیہ ایک دوسرے سے ملتے جلتے لگتے ہیں۔ دونوں برِاعظم کے قریب جزیرے ہیں۔ تقریباً ایک ہی جتنا علاقہ ہے۔ لیکن دونوں کی تاریخ بڑی مختلف رہی۔ برطانیہ کو براعظم سے آ کر چار مرتبہ فتح کیا گیا۔ برطانیہ کی افواج ہر صدی میں یورپ جا کر لڑتی رہیں۔ آج سے پانچ ہزار سال پہلے برطانیہ اور یورپ کے درمیان بڑے پیمانے پر تجارت ہوا کرتے تھی۔ برطانیہ میں کارن وال کے مقام پر ٹین یورپ میں کانسی بنانے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ برطانیہ تجارتی قوم تھی جبکہ جاپان نہیں۔

ایک جیسے جغرافیے کے باوجود اتنا فرق؟ اس کی دو وجوہات تھیں۔ جاپان کا باقی ایشیا سے فاصلہ سو میل ہے جبکہ برطانیہ کا بائیس میل۔ جاپان بہت ہی زرخیز ہے۔ جدید صنعت میں تیل اور دھاتوں کی درآمد کی ضرورت سے پہلے جاپان بڑی حد تک خودکفیل تھا۔ جاپان کی ڈھائی سو سالہ تنہائی کی پالیسی کی یہ وجہ رہی۔ امریکہ کا جاری کردہ الٹی میٹم اس لئے جاپان کے لئے ایک نیا چیلنج تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاپان نے یورپ سے بحری جہاز اور بندوقیں خریدنا شروع کیں۔ طلباء کو امریکہ اور یورپ  پڑھنے کے لئے بھیجا۔ نہ صرف عملی چیزوں جیسا کہ انجینرنگ، جہازرانی، صنعت، سائنس، ٹیکنالوجی سیکھنے بلکہ قانون، زبان، آئین، اکنامکس، پولیٹیکل سائنس کے لئے بھی۔ باکافو (شوگن حکومت) نے انسٹی ٹیوٹ آف فارن سٹڈیز قائم کیا۔ انگریزی زبان سیکھنے، ڈکشنری، حروفِ تہجی سیکھنے اور ترجمہ کرنے کو سپانسر کیا۔ ساٹسوما اور چوشو طاقتور ڈومین تھے اور مرکز کا ان پر خاص کنٹرول نہیں تھا اور یہ آپس میں بھی نبرد آزما تھے۔ یہ سب اس میں تیز سے تیز کی دوڑ میں تھے۔

دفاعی اور تعلیمی اخراجات میں اچانک ہونے والے اضافے سے ملک میں مہنگائی ہوئی۔ ملک میں سب نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ شوگن ان کی حفاظت نہیں کر سکتا۔ اپنی تجارت کی باگیں دوسری طاقتوں کے حوالے کر دینے پر ردِعمل آیا۔ غیرملکیوں کو نکالنے کے لئے جذباتی نوجوانوں کی تحریک شروع ہوئی ان کو “ششی” کہا جاتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جاپان کی حفاظت اپنی جان پر کھیل کر کریں گے۔ ان خارجیوں کو یہاں سے نکالا جائے۔ انہوں نے نہ صرف خارجیوں کو بلکہ ان کا ساتھ دینے والے جاپانیوں پر حملے شروع کئے۔ قتل کرنے شروع کئے۔ اس کا بدلہ لینے کیلئے برطانوی، فرانسیسی، امریکی اور ڈچ بیڑے کے سترہ جہازوں نے مل کر ساٹسوما کی بندرگاہ پر گولہ باری کر کے اس کے دارالحکومت کو 1863 میں بھاری نقصان پہنچایا اور جزیرے سے تمام توپیں اور بھاری ہتھیار اٹھا کر لے گئے۔ اپنے ایک شہری کو قتل کئے جانے پر برطانیہ نے جاپان سے نہ صرف تاوان وصول کیا بلکہ شوگن سے معافی منگوائی گئی۔

ان واقعات سے جاپان میں سب پر ہی واضح ہو گیا تھا کہ راستہ یہ نہیں، کچھ اور کرنا ہے۔

ملک میں خانہ جنگی جاری تھی۔ اس اندرونی چپقلش کا خاتمہ 3 جنوری 1868 کو ہوا جب کئی لیڈروں نے اکٹھا ہو کر شوگن حکومت کا خاتمہ کر دیا اور اقتدار نوجوان بادشاہ  میجی کے حوالے کر دیا جو ابھی پچھلے برس ہی بادشاہ بنے تھے۔ ملک چلانے کا کام میجی کونسل کے پاس آیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شوگن نے شکست تسلیم کر لی تھی۔ اگلے ایک سال تک ہوکیڈو جزیرے پر کنٹرول حاصل کر لینے کے ساتھ خانہ جنگی ختم ہو گئی لیکن کئی بڑے سوال سامنے تھے۔ میجی کونسل نے تین بنیادی اصولوں پر اتفاق کر لیا۔ خلاصہ یہ تھا کہ تمام شعبہ زندگی میں دنیا بھر سے بہترین ماڈل ڈھونڈا جائے اور اس کو جاپان کی روایات اور اقدار کے مطابق اپنا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاپان میں مرکزی فوج نہیں تھی، بہت سی پرائیویٹ افواج تھیں۔ نیوی کیلئے برطانیہ اور آرمی کے لئے جرمنی کا ماڈل استعمال کیا گیا۔ قوانین اور سول لاء بنانے کے لئے فرانس سے سکالر بلائے لیکن اس کا دوسرا ڈرافٹ جرمنی کے ماڈل پر تھا۔ تعلیم کو کیسے آرگنائز کیا جائے؟ اس کیلئے پچاس حکومتی اہلکاروں نے دنیا بھر کا دورہ کیا اور لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ دو سال تک جاری رہنا والا ایواکورا مشن سربراہانِ مملکت سے ملاقاتوں کے علاوہ فیکٹریوں اور سرکاری دفاتر کی سٹڈی بھی کرتا رہا اور پانچ جلدوں پر مشتمل رپورٹ 1873 میں جاری کی کہ جاپان کونسی چیز کو کیسے اپنا سکتا ہے۔ جب فرانس اور پروشیا کی جنگ چھڑی تو یہ دیکھنے کیلئے کہ یہ لڑتے کیسے ہیں، دو آبزور بھیجے۔

میجی حکومت کے اہم کردار ایٹو ہیروبومی (جنہوں نے جاپانی آئین بنایا) دیر تک یورپ میں رہے تھے اور آریٹومو (جو وزیرِ اعظم بنے) نے جرمنی سے ملٹری سائنس پڑھی۔ ٹوموساٹو نے جاپانی ریل اور کانکنی کی ابتدا کی اور چیمر آف کامرس کے صدر بنے۔ آئیچی، جو پیرس مشن کے کنٹرولر تھے، نے جاپانی بینکاری اور ٹیکسٹائل کو ڈویلپ کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس تمام تبدیلی میں جاپانی روایات کو پامال نہیں کیا گیا۔ جاپان کے پہلے آئین کا اعلان جاپانی بادشاہ نے خود کیا اور اپنی تقریر میں کہا کہ “ہم نے اپنے آباء سے جو شے وراثت میں لی ہے، وہ اس جگہ پر اپنا حق اور اپنی مرضی کا نظام ہے۔ جدت بھی ہماری ہی ایک روایت ہے”۔

جاپان 1868 میں ایک بحرانی حالت میں تھا۔ بیرونی طاقتوں کی طرف سے حملے کا خطرہ صاف نظر آ رہا تھا۔ خانہ جنگی سے ملک تہس نہس ہو سکتا تھا۔ ڈومین آپس میں جنگیں چھیڑ سکتے تھے۔ اس سیاسی یونٹ سے علیحدہ ہو سکتے تھے۔ الگ جزائر میں الگ ملک بن سکتے تھے۔ بغاوت ہو سکتی تھی۔ سامورائی کا نظام ختم کرنا آسان نہیں تھا۔ کئی جگہ پر بغاوت ہوئی بھی۔ ٹیکس کے نظام کے بعد کئی جگہ کاشتکاروں کی طرف سے بھی ہوئی لیکن میجی لیڈر لوگوں کو خریدنے، ساتھ ملانے، معاملہ کرنے، مصالحت کرنے اور مخالفین کو ساتھ ملانے کے ماہر رہے۔ ہوکیڈو میں اپنے سب سے بڑے حریف اینومیٹو ٹاکیکی، جن سے آخر تک جنگ ہوتی رہی تھی، کو کابینہ میں وزیر بنا لیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میجی عہد کے ابتدائی چند سالوں میں سب سے اہم کام ہوئے۔ فیوڈل ازم کا خاتمہ، تعلیمی نظام، آئین، بیرونی ممالک سے تعلقات، جدید مرکزی فوج، ٹیکس کا نظام شروع ہوا۔ سامورائی کے لئے تلوار اٹھانا ممنوع اور پرائیویٹ سزاوٗں کا سسٹم ختم ہو گیا۔ سابق سامورائی کو اس کے لئے حکومتی وظیفے دئے گئے، جو پھر حکومتی بانڈز میں تبدیل ہو گئے۔ فیوڈل ازم صرف اڑھائی سال میں ختم ہو گیا۔

سب سے بڑی تبدیلیاں تعلیمی نظام میں آئیں۔ قومی نظام، ابتدائی سکولنگ 1872 میں شروع ہوئی۔ جاپان میں پہلی یونیورسٹی 1877 میں قائم ہوئی۔ مڈل تعلیم 1881 میں اور ہائی سکول 1886 میں قومی پالیسی کے تحت بنی۔ اس پر زور اس قدر تھا کہ جاپان اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا ملک شمار ہوتا ہے۔ اس کا پہلا مقصد وفادار شہری بنانا تھا، دوسرا جاپانی افرادی قوت کو جاب مارکیٹ کے لئے تیار کرنا جو حکومتی بیوروکریسی چلا سکے اور صرف کنفیوشس کے فلسفے تک محدود نہ ہو۔ لازمی تعلیم کی پالیسی نے وراثتی پیشوں کا خاتمہ اس قدر تیزی اور موؐثر طریقے سے کیا جس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں۔ اس معاملے میں دنیا کا کوئی بھی اور ملک جاپان کا مقابل نہیں۔

روایتی نظامِ انصاف کی جگہ 1871 میں لیگل سسٹم متعارف ہوا۔ 1875 میں سپریم کورٹ بنی۔ کریمینل، کمرشل اور سول لاء کو کئی ممالک کے تجربا سے متعارف کروایا گیا۔ تفتیش کے لئے تشدد پر پابندی عائد ہو گئی۔

ڈاک کا نظام 1872 میں آیا۔ ریل روڈ، قومی بینک، اور سٹریٹ لائٹ 1873 میں۔ حکومت صنعت لگانے میں بھی ہاتھ بٹانے لگی۔ اینٹوں، سیمنٹ، مشینیری اور ریشم کے لئے جدید طریقے اور سامان درآمد کیا گیا۔ چین سے 1894 کی جنگ کے بعد عسکری انڈسٹری، کوئلہ، بجلی، گیس کی فیکٹریوں، بحری جہاز بنانے پر زور آ گیا۔

جاپان کا آئین شاہی خاندان کی 2549ویں سالگرہ پر 1889 میں جب پیش کیا گیا تو اس کو بادشاہ کی طرف سے عوام کے لئے تحفہ کہا گیا۔ اس تقریب میں دنیا بھر سے لوگوں کو بلایا گیا۔ یہ دکھانے کے لئے کہ جاپان کسی بھی کم نہیں اور برابری کی بنیاد پر بات کر سکتا ہے۔

ہر ملک اپنی قومی شناخت رکھتا ہے اور یہ انتہائی اہم ہے۔ جاپان میں ہونے والی تبدیلیوں نے جاپانیوں کا لباس، خارجہ پالیسی، بالوں کا سٹائل، فیوڈل طریقے، قانون، سائنس، حکومت کا انداز، سیاست کو بدل دیا لیکن بہت کچھ برقرار رہا۔  جاپانی رسم الخط، بادشاہ کا احترام، اجتماعی اقدار، انتہائی شائستگی، خوبصورت لکھائی، بے لوثی، صنفی تعصب، ذاتی تعلقات اور بزنس کو الگ نہ رکھنا، سسرال کے ساتھ رویہ ۔۔۔ بہت سی جاپانی چیزیں ایسی ہیں جو جاپان کو باقی دنیا سے ممتاز کرتی ہیں۔ شنتو اور کنفیوشس کے آئیڈیاز، شاہی خاندان کا احترام، جاپان کی قومی ہم آہنگی، ملک سے محبت قومی نصابی کتابوں کا اہم جزو بنے۔ ان تبدیلیوں اور نئی پالیسی کا مقصد جاپان میں یورپ بنانا نہیں تھا (جو کہ آسٹریلیا کی پالیسی تھی) بلکہ جاپان کو یورپ کے مقابلے میں لانا تھا۔

پیری کا بیڑہ آنے سے پہلے بھی جاپان کوئی دنیا کی پسماندہ ترین جگہ نہیں تھی۔ یہں پر خواندگی کی شرح دنیا کی اوسط سے بہتر تھی۔ ایڈو (جو اب ٹوکیو کہلاتا ہے) ڈیڑھ سو سال سے دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ لیکن اس بحران کے وقت جاپان میں اہم چیز اپنا دیانتدارانہ جائزہ لینا اور منتخب جگہوں پر تبدیلی کرنا رہے۔ اس میں ایک اور خاصیت یہ رہی کہ اس دور میں کوئی ایک عظیم جاپانی لیڈر نہیں تھا۔ کوئی ہٹلر، سوہارتو، گاندھی وغیرہ جیسا لیڈر نہیں جس کا نام جاپان سے باہر زیادہ لوگ جانتے ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میتھیو پیری کے بیڑے کے چیلنج سے خوفزدہ جاپانی اس سے صرف چالیس سال بعد 1894 میں خود کالونی بنانے والا ملک بن گئے جب انہوں نے اس کا آغاز تائیوان پر قبضے سے کیا۔ 1904 میں یہ کالونیل دور میں پہلا ایشیائی ملک بن گئے جس نے کسی بھی یورپی طاقت کو علی الاعلان بڑی جنگ میں اپنی آرمی اور بحریہ کے ذریعے شکست دی۔ روس سے ساخالن جزائر اور منچورین ریل روڈ پر قبضہ لے لیا۔ یہ تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل تھا۔ اس سے شروع ہونے والی واقعات کی کڑی امپیریل جاپان کو ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرنے والے ایٹم بموں تک لے گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت یورپ کا کوئی بھی ملک جاپان جتنی بڑی معیشت نہیں۔ دوسری جنگِ عظیم میں بھاری نقصان اٹھانے، معیشت کی تباہ حالی، ملک کے انفراسٹرکچر کی تباہی اور ایٹم بموں کا سامنا کرنے کے بعد بھی یہ دنیا میں اس قدر جلد واپس کیسے آ گیا؟  ایک تعلیم یافتہ معاشرہ، کام کرتے ادارے، مضبوط قومی شناخت، مقابلے کا کلچر ۔۔۔ اس کی بنیاد انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ہونے والی تبدیلیوں سے رکھی گئی تھی۔


ساتھ لگی تصویر اس وقت کی بنائی گئی جب جاپانی بادشاہ پہلے جاپانی دستور کو پیش کر رہے ہیں۔


اس کا پہلا حصہ
https://waharaposts.blogspot.com/2019/12/blog-post_6.html

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں