باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 16 جنوری، 2020

ٹائٹن میزائل

سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین نے ایک دوسرے کے خلاف حملے کی تیاری کے لئے ے زیرِزمین سائلو بنائے جن میں ہر وقت میزائل فائر ہونے کے لئے تیار رہنتے تھے۔ ہزاروں میل دو جا کر مار کرنے کی صلاحیت رکھنے والے یہ میزائل انسانی تاریخ کا سب سے مہلک ہتھیار رہے ہیں۔ دونوں ملک نہ صرف ایک دوسرے کو بلکہ دنیا کی آبادی کو تباہ کرنے کے لئے کافی تھے۔ چند منٹ کے نوٹِس پر ان کو لانچ کیا جا سکتا تھا۔ ان کو لانچ کرنے کے ڈیزائن میں دو چیزوں کا توازن درکار تھا۔ اتنا آسان ہو کہ یہ جلد سے جلد لانچ کیا جا سکے اور دوسری طرف اس میں اتنی رکاوٹ ہو کہ حادثاتی طور پر کبھی بھی ایسا نہ ہو سکے۔ یہ میزائل ہیروشیما پر گرائے بم کے مقابلے میں سینکڑوں گنا زیادہ طاقتور تھ۔ دس میگاٹن جیسے میزائل کا مطلب یہ خوف قائم رکھنا تھا کہ مخالف نیوکلئیر حملہ کرنے سے پہلے اچھی طرح سے کئی مرتبہ سوچ لے کہ ایسا کرنے سے کسی صحرا کے دس میٹر نیچے کنکریٹ کے بنکر میں ایک میزائل اسی وقت کے انتظار میں ہے۔ پھر جو ہو گا، وہ ناقابلِ بیان حد تک ہولناک ہو گا۔

امریکہ ایسے 54 سائیلو موجود تھے۔  سرد جنگ کے وقتوں میں چوبیس گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن یہاں پر سٹاف موجود ہوتا تھا۔ اس انتظار میں کہ کب صدر کی جانب سے حکم آ جائے۔  خوش قسمتی یہ رہی کہ ایسا حکم کبھی نہیں آیا۔ لیکن اگر وہ  پیغام موصول ہو جاتا جس کے انتظار میں یہاں عملہ تعینات رہا کرتا تھا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 یہ پیغام ریڈیو سگنل کے ذریعے سائلو تک پہنچتا۔ یہ ایک 7 حرفی کوڈ ہوتا۔ دو الگ لوگ آنے والے پیغام کو سن کر اپنی اپنی نوٹ بک میں لکھتے۔ اس کا ایک دوسرے سے موازنہ کر کے دیکھتے کہ پیغام ٹھیک لکھا گیا ہے۔ اس کے بعد بڑا سیف کھول لیا جانا تھا۔ دونوں کو اس سیف کا اپنا اپنا کمبی نیشن پتا تھا۔ لیکن دوسرے کا نہیں۔ اگر دونوں یہ کمبی نیشن ٹھیک بتا دیتے تو سیف کھل جاتا۔ اس کے اندر کارڈ پڑے ہوتے۔ آنے والے پیغام کے پہلے دو حروف کے عنوان والا کارڈ اٹھایا جاتا۔ اس کارڈ کے اندر لکھے پانچ حروف اگر وہی ہوتے جو موصول ہونے والے پیغام کے آخری پانچ ہیں تو تصدیق ہو جاتی۔ پیغام اصل ہے اور اب میزائل لانچ کرنے کا وقت ہے۔

دونوں کے پاس اپنی اپنی چابی ہے جو انہوں نے اپنی اپنی جگہ پر لگانی ہے اور اس کو گھمانا ہے۔ ان کو ایک ہی وقت گھمائے جانا ہے (اس کے درمیان دو سینکڈ سے زیادہ وقفہ نہیں ہو سکتا) اور کم از کم پانچ سیکنڈ تک اس چابی کو اپنی جگہ پر رکھے جانا ہے۔ (یہ سپرنگ لوڈڈ ہے اور اگر اس کو پکڑ کر نہ رکھا جائے تو واپس آ جائے گی)۔ یہ اس چیز کو یقینی بنانے کے لئے ہے کہ یہ کام دو الگ لوگ کر رہے ہیں اور ایک ہی شخص کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ دونوں صرف اسی وقت اس پر متفق ہو سکتے ہیں جب دونوں کو یقین ہو کہ یہ کام کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اس کے ساتھ اب ایک سولہ ہندسوں کا کوڈ ہے جس کو ٹھیک سیٹ کیا جائے گا تو اب سسٹم متحرک ہو گیا۔

اس راکٹ کی تیاری اور جگہ پر نصب کرنے میں ٹیکنالوجی کے چیلنج بہت طرح کے تھے۔ مثال کے طور پر، ایک چیلنج آواز کا تھا۔ اتنی تنگ جگہ سے میزائل لانچ کرنے کا مطلب یہ کہ اونچی آواز کی وجہ سے لرزہ میزائل کو لانچ ہونے سے پہلے ہی توڑ سکتا تھا۔ اس کے لئے دیواریں پر ایسی ٹائلیں لگائی گئی تھیں جو آواز کو جذب کر سکیں۔ اس سب کو پہلے سے یقینی بنایا گیا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھیک ہو جائے۔

 راکٹ لانچ ہونے لگا ہے۔ اب کچھ واپس نہیں ہو سکتا۔ میزائل کی بیٹری فل پاور پر آ کر میزائل کا پاور سسٹم تیار ہے۔ یہ اپنا سفر آزادانہ کر سکتا ہے۔ اس سائیلو کا دروازہ کھلنے لگے گا۔ جب یہ کھلے گا تو سیکورٹی ریڈار بیم سے گزرنے کی وجہ سے الارم کی گھنٹیاں بجنے لگیں گی۔ چند سیکنڈ میں راکٹ کا مین انجن سٹارٹ ہو جائے گا۔ تیزرفتاری سے دھواں نکلنے لگے گا اور راکٹ اٹھنا شروع ہو گیا۔

دنیا میں بڑی تباہی آنے لگی ہے۔ راکٹ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ زمین پر زندگی کے لئے برا وقت ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا کوئی بھی بچ پائے گا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمام تر حفاظتی اقدامات کے بعد ان جگہوں پر کئی حادثات بھی ہوئے۔ 1978 میں کینساس کے سائلو میں ایندھن لیک ہو جانے کی وجہ سے قریبی دیہات خالی کروانا پڑے تھے۔ 1980 میں ایک حادثے کی وجہ سے پوٹوون کا سائلو بند کرنا پڑا تھا۔ ستمبر میں آرکنساس میں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

سرد جنگ کی شدت کم ہو جانے کے بعد ان کو ختم کیا جانے لگا۔ 1987 تک سب کو ڈی ایکٹویٹ کیا جا چکا تھا۔ کئی بار حالات کشیدہ ہوئے اور دنیا تباہی سے بال بال بچی۔ اس سے زیادہ مرتبہ جتنا اس بارے میں سمجھا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان میزائل کا مقصد خوفناک تھا۔ لیکن نیل آرمسٹرانگ نے اپنی خلا کی طرف اپنی اڑان ٹائٹن ٹو کے ذریعے بھری (یہ جیمینائی 8 کا مشن تھا)۔ خلائی مشنز میں یہی راکٹ استعمال ہوتے رہے۔ وہی راکٹ جو نیوکلئیر ہتھیار سوویت یونین تک پہنچاتے، خلانوردی کے لئے استعمال ہوتے رہے۔ نیوکلئیر پروگرام سے ریٹائر کئے گئے راکٹس  سے نیوکلئیر ہتھیار ہٹا کر ان کو مفید مقصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ ووئجیر سپیس کرافٹ ایسے ہی ایک ٹائٹن تھری میزائل کے ذریعے بھیجا گیا۔ ان کے ذریعے خلا میں سیٹلائیٹ بھیجے گئے۔ ان کے ذریعے بھیجے جانے والے تمام مشن کامیاب رہے۔ ان راکٹوں میں سے 19 اکتوبر 2005 کو گیا جس میں آپٹیکل امیجنگ کا سیٹلائیٹ تھا۔ اب ایسے چند میزائل میوزیم کی زینت ہیں۔  کئی جگہوں پر بنکر اور لانچ سسٹم کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ ان پر اب ٹورسٹ جا سکتے ہیں۔

ہماری خوش قسمتی کہ ان میں سے کوئی بھی اس مقصد کے لئے استعمال نہیں ہوا جس کے لئے بنایا گیا تھا، ورنہ آپ یہ آرٹیکل نہ پڑھ رہے ہوتے۔۔۔۔


ساتھ لگی تصویر ڈیلٹا 09 سائٹ کی۔ یہ تیس برس تک ایکٹو رہی۔ اب اس کا ٹور کیا جا سکتا ہے۔ اس کو دیکھنے کے لئے
https://www.nps.gov/mimi/index.htm


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں