باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 17 جنوری، 2020

اُڑتی ہوئی رصدگاہ اور پہلے مالیکیول

“میں نے دنیا کا طاقتور ترین تیزاب دریافت کر لیا ہے۔ ایسا تیزاب جو کسی بھی چیز کو کاٹ سکتا ہے!
خوب! تم نے اسے رکھا کہاں پر ہے؟”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کائنات پیدائش کے اڑھائی لاکھ سال بعد، کیمسٹری کی صبح ہو رہی تھی۔ درجہ حرارت 4000 ڈگری سے نیچے آ چکا تھا اور ایٹم بن سکتے تھے۔ اس کے بعد ان ایٹموں نے ملنا شروع کیا اور مالیکیول بننے لگے۔ سب سے پہلے ملاقات ہیلئم اور ہائیڈروجن کی ہوئی۔ ہیلئم ایٹم کی ہائیڈروجن آئیون  کا ملاپ کائنات کے سب سے پہلے مالیکیول تھے۔ یہ ہیلئم ہائیڈرائیڈ آئیون (HeH+) تھے۔ اس مالیکیول نے پہلے ستارے اور کہکشاوں کو شکل دی اور پھر ۔۔۔  جو ہوا، تاریخ کا حصہ ہے۔

یہ کہانی ہماری کیمسٹری کی سمجھ کی بنیاد پر تھی۔ کوئی ان کو دیکھنے کے لئے اس وقت تو وہاں پر نہیں تھا اور اس سے ایک معمے نے جنم لیا۔ کئی دہائیوں کی تلاش کے بعد بھی کوئی اچھے شواہد نہیں ملے تھے کہ ہیلئم ہائیڈرائیڈ آئیون خلا میں کہیں پر بھی موجود ہیں۔ یہ مسئلہ 2019 تک رہا۔ نیچر جریدے میں اپریل 2019 میں شائع ہونے والے پیپر میں ایک انٹرنیشنل ٹیم نے رپورٹ کیا کہ ان کو یہ مالیکیول مل گئے ہیں۔

سائنسدانوں کو یہ تو معلوم تھا کہ ہیلئم ہائیڈرائیڈ آئیون پایا جا سکتا ہے کیونکہ لیبارٹری میں 1925 میں انہیں دریافت کر لیا گیا تھا۔ لیکن خلا میں اس کو تلاش نہیں کیا جا سکا تھا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بہت ہی زیادہ ری ایکٹو ہیں۔ تمام معلوم تیزابوں میں سب سے زیادہ طاقتور تیزاب ہیلئم ہائیڈرائیڈ ہے۔ ان کو جو بھی نیوٹرل مالیکیول ملے گا، یہ اس سے ری ایکشن کر لیں گے۔ اور اگر اس کو ایک الیکٹران بھی مل جائے گا تو اس کے بانڈ کو توڑ دے گا۔ صرف مثبت چارج والے آئیون ہیں جن کے ساتھ یہ ری ایکشن نہیں کرتا۔ اس لئے کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ یہ تلاش آسان ہو گی۔

سائنسدان ایسی جگہوں کو تلاش کر رہے تھے، جہاں پر حالات ابتدائی کائنات کے حالات کے قریب ترین ہوں۔ اور اس کے لئے ان کے پاس بہترین جگہ پلینٹری نیوبلا کے اندر تھی۔ یہ نیبولا مرتے ستاروں سے نکلتے گیس کے خوبصورت خول ہوتے ہیں جو عام طور پر گرم سفید بونے سیارے کے گرد ہوتے ہیں۔ اس کی ریڈی ایشن کی شدت اس قدر ہوتی ہے کہ یہ ایٹموں سے الیکٹران نکال دیتی ہیں اور چارج والے آئیون کے بڑے علاقے بن جاتے ہیں، جہاں پر کچھ دلچسپ کیمسٹری نظر آ سکتی ہے۔ یہ ابتدائی کائنات والی حالت تو نہیں، لیکن اس حالت سے سب سے قریب تر یہی جگہ ہے۔

ایک ایسا نیبولا جو تین ہزار نوری سال دور ہے، NGC7027 کہلاتا ہے اور اس کی عمر ابھی صرف چھ سو سال ہے۔ اتنی کم عمر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ انتہائی کثیف ہے۔ اور اس کے درمیان کا ستارہ بہت گرم ہے۔ اس کا درجہ حرارت 190,000 ڈگری ہے۔ کثیف گیس اور شدید ریڈی ایشن والے اس علاقے میں سائنسدانوں کو امید تھی کہ وہ ہیلئم ہائیڈرائیڈ مل سکتے ہیں۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ اس کو دیکھا کیسے جائے؟ آسٹرونومر عام طور پر خلا میں مالیکیول کی شناخت ایسی فریکونسی کو ٹیون کر کے کرتے ہیں جس پر یہ مالیکیول وائبریٹ کریں۔ ہیلئم ہائیڈرائیڈ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کی سب سے زیادہ وائبریشن جس فریکیونسی پر ہوتی ہے، وہ 2 ٹیرا ہرٹز سے کچھ اوپر ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایمیشن فار انفراریڈ سپیکٹرم میں ہے۔ فار انفراریڈ سپیکٹرم کا مشاہدہ کچھ سپیس ٹیلی سکوپ کر سکتے ہیں لیکن وہ اتنے حساس نہیں کہ ہیلئم ہائیڈرائیڈ کو اپنے قریب تر مالیکیول سے الگ کر سکیں۔

زمین پر نصب آلات کے ساتھ ایک اور طرح کا مسئلہ ہے۔ زمین کی فضا میں آبی بخارات جیسی چیزیں اس فریکیوئنسی کی ریڈی ایشن کو آسانی سے جذب کر لیتے ہیں۔ اس لئے زمینی آلات اس بارے میں زیادہ کام کے نہیں۔ یعنی کہ نہ انہیں خلا میں ڈھونڈا جا سکتا ہے اور نہ زمین کی سطح پر، لیکن ہم نے پھر بھی ان کو ڈھونڈ لیا۔ وہ کیسے؟ اڑتی ہوئی رصدگاہ سے۔

اس کو سٹڈی کرنے والے آلے کو GREAT کہا جاتا ہے۔ یہ German Receiver for Astronomy at Terahertz frequencies کا مخفف ہے۔ اڑتی ہوئی آبزرویٹری SOFIA ہے جو بوئنگ 747 طیارے کا ایک تبدیل شدہ ماڈل ہے۔ اس پر ناسا نے 3 میٹر کی ٹیلی سکوپ اور آلات نصب کئے ہیں۔ صوفیہ زمین سے بارہ کلومیٹر کی بلندی پر پرواز کر سکتا ہے۔ اتنی بلندی انفراریڈ سپیکٹرم جذب کرنے والے فضا کے زیادہ تر آبی بخارات سے اونچی ہے۔ سیٹلائیٹ کے بجائے جہاز استعمال کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ راکٹ کے مہنگے مشنز بھیجے بغیر نئے آلات آسانی سے نصب ہو سکتے ہیں۔ GREAT کو SOFIA پر نصب کر دیا گیا اور اس کی ٹیلی سکوپ سے لنک کر دیا گیا۔ یہاں پر تین پروازوں کے دوران NGC7027 سے آنے والا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔ اس کی پراسسنگ ہوئی اور آسٹرونومرز کو وہ مل گیا جس کی ان کو تلاش تھی۔ یعنی کہ ہیلئم ہائیڈرائیڈ کا سپیکٹرل دستخط جو واضح تھا۔

اس ڈیٹکشن کو دیکھ کر ہم اب زیادہ اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ کیمسٹری کی مدد سے کی گئی پیشگوئی ٹھیک تھی اور بگ بینگ کے بعد کے ماڈل کے مطابق، ان حالات میں ہیلئم ہائیڈرائیڈ پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کی اہمیت کی یہ واحد وجہ نہیں۔ان مشاہدات سے آسٹرونومرز کو یہ جاننے میں مدد مل رہی ہے کہ بھاری ریڈی ایشن والے ماحول میں مالیکیول کیسے بنتے ہیں۔ اور اب جبکہ ہمارے پاس وہ ٹیکنالوجی آ گئی ہے کہ ہم سیاراتی نیبولاز میں ہیلئم ہائیڈرائیڈ کے آئیون کا پتا لگا سکتے ہیں، ہم اس طریقے سے مزید انفارمیشن حاصل کر سکتے ہیں اور اس کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔

وہ وقت، جب کیمسٹری کی صبح ہوئی، اب ہم اس کو زیادہ تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اس اُڑتی رصد گاہ پر پر کئی طرح کے آلات نصب ہیں، ان کے بارے میں یہاں سے
https://www.sofia.usra.edu/science/instruments/great

ہیلئم ہائیڈرائیڈ ملنے پر پیپر
https://www.nature.com/articles/s41586-019-1090-x

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں