باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 26 جنوری، 2020

نیٹ ورک ۔ انفارمیشن کی ترسیل

ڈیجیٹل انقلاب میں پراسسنگ، سنسرز، سافٹ وئیر اور سٹوریج سب اہم تھے لیکن جب تک چیزیں آپس میں جوڑی نہ جاتیں، ان سے ویسا فائدہ نہیں لیا جا سکتا تھا۔ ترقی کی یہ جہت نیوٹ ورکنگ کی جدت ہے۔ اور اس میں ریڑھ کی ہڈی سمندر کے نیچے اور زمین پر بچھے فائبر آپٹک کے تار ہیں۔ پچھلے پچیس سال میں ان میں ہونے والی ترقی بھی مورز لاء کی رفتار کے قریب سے رہی ہے۔

امریکہ کے شہر چٹانوگا نے میں الٹرا ہائی سپیڈ فائبر آپٹک کیبل کی تنصیب کی گئی۔ ایک گیگا بٹ فی سیکنڈ پر ڈیٹا کی رفتار ایک عام امریکی شہر سے 30 گنا زیادہ تھی۔ اس کی نمائش کرنے کے لئے ایک کنسرٹ کا انتظام کیا گیا۔ چار ہزار ناظرین کے سامنے 13 اکتوبر 2014 کو دو موسیقاروں نے ملکر پرفارم کیا۔ ان میں سے ایک چک میڈ تھے جو سٹیج پر تھے اور دوسرے ٹی بون برونٹ تھے جو دو ہزار میل دور لاس اینجلس میں تھے اور سکرین پر نظر آ رہے تھے۔ اس تیزرفتار نیٹورک نے یہ ممکن بنایا کہ یہ دونوں اتنے بڑے فاصلے کے باوجود یہ ڈوئٹ پرفارم کر سکیں۔ آڈیو اور ویڈیو کے پہنچنے میں تاخیر 67 ملی سیکنڈ تھی۔ اتنی کم کہ کوئی انسانی کان اس فرق کو محسوس نہیں کر سکتا تھا۔ پلک جھپکنے کے وقت سے ایک چوتھائی۔

یہ ڈوئٹ اس لئے ممکن ہوا کہ فائبر آپٹکس کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں اس سے پچھلے برسوں میں کئی بریک تھرو ہوئے تھے۔ اگر ایک کمپیوٹر سائٹسٹ یہ چیک کرنا چاہے کہ کوئی دوسرا کمپیوٹر جاگا ہوا ہے تو اس کے لئے استعمال کی جانے والی کمانڈ “ping” ہے۔ یہ ایک برقی پیغام ہے جو دوسرے کمپیوٹر کے ایڈریس پر بھیجا جاتا ہے۔ دوسرے سے ٹکرا کر واپس آتا ہے اور اس دوران یہ بھی بتا دیتا ہے کہ اس سب میں کتنی تاخیر ہوئی۔ اس کمانڈ کو 1980 کی دہائی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

سٹینفورڈ یونیورسٹی کے سائنٹسٹ فِل بکسبام کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے گھر سے دنیا کے کمپیوٹروں کو پنگ کرنا شروع کیا۔ این آربر، لندن، تل ابیب، ایڈلیڈ کے کمپیوٹروں کو اور نتائج دیکھے، جو حیران کن تھے۔ یہ روشنی کی رفتار کے نصف کے قریب تھی۔ یعنی بکسبام کے کمپیوٹر سے پیغام ان کی مقامی فائبر آپٹک کیبل تک گیا۔ اس کے بعد زمینی کیبل میں، پھر زیرِسمندر کیبل میں، پھر دنیا میں کہیں دور ایک کمپیوٹر میں۔  اور یہ سب اتنی تیزرفتاری سے ہوا کہ یہ قوانینِ فطرت کی حد کے نصف کا وقت تھا۔ یہ بڑا انقلاب کمیونیکیشن میں مورز لاء کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس رفتار سے ڈیٹا زیرِسمندر تار کے ذریعے بھیجنا ممکن ہو رہا ہے، یہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس کہانی کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ پہلے آواز اور ڈیٹا تانبے کی تاروں پر بھیجا جاتا تھا۔ جس میں ڈیجیٹیل ریڈیو فریکوئنسی استعمال کی جاتی تھی۔ اسی کوایگزئیل تار کو دنیا بھر میں آواز اور ڈیٹا بھیجنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔

سٹینفورڈ اور بیل لیبز میں کچھ سائنسدان لیزر سے کھیلنا شروع ہوئے کہ آواز اور ڈیٹا کو روشنی کے ذریعے آپٹیکل ریشوں سے کیسے بھیجا جا سکتا ہے۔ یہ آپٹیکل فائبر بنیادی طور پر لمبی، پتلی اور لچکدار شیشے کی ٹیوب تھیں۔ اس کی ڈویلپمنٹ ہوتے ہوتے 1990 کی دہائی کے شروع میں یہ نیا سٹینڈرڈ بن گیا۔ ابتدائی فائبر آپٹک تاریں زنجیروں کی شکل میں تھیں اور سگنل کو زیادہ دور تک نہیں لے کر جا سکتی تھیں۔ سگنل کمزور پڑتا جاتا تھا اور اس کو ایک ایمپلی فائر ڈبے سے گزارا جاتا تھا۔ یہاں پر یہ روشنی سے برقی سگنل میں تبدیل ہوتا تھا، ایمپلی فائی ہوتا تھا اور پھر واپس روشنی کا سگنل بنتا تھا اور آگے بھجوایا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس صنعت کو اچھوتے طریقے ملتے گئے۔ اس کو بنانے کا طریقہ اور کیمیکل استعمال کرنے کے لئے طریقے جس میں سگنل کمزور نہیں پڑتا تھا۔

یہ سب سے بڑا بریک تھرو تھا۔ درمیان میں لگے ایمپلی فائی کرنے والے ڈبوں سے نجاب مل گئے اور ایک پوری تار خواہ چین سے امریکہ کے درمیان ہو یا افریقہ اور بحرِاوقیانوس کے جزیرے کے درمیان، سگنل بغیر کسی پراسسنگ کے جانا ممکن ہو گیا۔ اس نے مزید استعمالات ممکن بنائے۔ براڈ بینڈ انٹرنیٹ ان میں سے تھا۔

اس کی وجہ یہ کہ اب برقی سگنل کی حدود سے چھٹکارا مل گیا تھا۔ لیزر کی خاصیتوں سے بہت سے کام لئے جا سکتے تھے۔ لیزر اور شیشے میں سے زیادہ سے زیادہ انفارمیشن گزارنا ممکن ہو گیا۔ روشنی کے آن اور آف ہونا یہ سگنل تھا۔ اس میں وقت کی تقسیم کی بنیاد پر بہت سے چینل بنانا ممکن ہوا۔ لیزر کی پلس سے اس کی کیپیسیٹی میں اضافہ ہوا۔ روشنی کی الگ ویولینتھ کی بنیاد پر بیک وقت کئی سگنل بھیجے جا سکتے تھے۔ آسان مثال کے لئے: اگر ہم ایک فون کال کا سگنل نیلے رنگ کی روشنی میں بھیج رہے ہیں اور ایک زرد رنگ کی روشنی میں تو یہ دونوں ایک ہی وقت میں ایک دوسرے کو چھیڑے بغیر ایک ہی تار میں سفر کر سکتی ہیں۔

اس میں ہونے والی جدتوں کی رفتار میں کمی نہیں آئی۔ روشنی کی خاصیتیوں کو استعمال کرتے ہوئے ان میں زیادہ سے زیادہ انفارمیشن پیک کی جا رہی ہے۔ ایک زیرِزمین کیبل ایک سیکنڈ میں کئی ٹریلین بِٹ لے کر جاتی ہے۔ کسی وقت ہم فزکس کے قوانین کی حد تک پہنچنے لگیں گے لیکن ابھی اس سے دور ہیں۔ لیزر کی کئی خاصیتوں کی وجہ سے تجرباتی بنیاد پر موجودہ رفتار سے سینکڑوں گنا رفتار حاصل کی جا چکی ہے۔

تقریباً لامحدود ڈیٹا کی ترسیل تقریباً مفت۔ یہاں پر ہم تقریباً کی تعریف بڑھاتے جا رہے ہیں۔ انفارمیشن کی ترسیل کی یہ رفتار ہمارے طرزِ زندگی اور توقعات کو تبدیل کر چکی ہے۔ مزید تیزی سے تبدیل کر رہی ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں