باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 28 ستمبر، 2022

کیوں (5)


کازیشن کا سوال مصنوعی ذہانت کے بارے میں ضروری ہے۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں ہمارے سوالات کو پانچ کیٹگری میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ ہم جو ذہین مشینیں بنا چکے ہیں، کیا یہ سوچ سکتی ہیں؟
۲۔ کیا ہمیں ایسی مشینیں بنا سکتے ہیں، جو سوچ سکیں؟
۳۔ کیا ہم ایسی مشینیں بنا لیں گے، جو سوچ سکیں؟
۴۔ کیا ہمیں ایسی مشینیں بنانی چاہیئں، جو سوچ سکیں؟
اور یہاں پر یاد رکھیں کہ مصنوعی ذہانت کے بارے میں ہماری پریشانیوں کے پیچھے پایا جانے والا ان کہا سوال یہ ہے کہ:
کیا ہم ایسی مشینیں بنا سکتے ہیں جو صحیح اور غلط میں تقریق کر سکیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں پہلے سوال کا جواب تو “نہیں” ہے۔ دوسرے سوالات پر اتفاق نہیں۔  
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخی طور پر انسان کبھی بھی کوئی ایسی چیز بنانے سے باز نہیں رہے جنہیں بنایا جا سکتا ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب تک کچھ کر نہیں لیا جاتا، ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ آیا اس کو کیا بھی جا سکتا ہے یا نہیں۔ خواہ یہ جانور کلون کرنا ہو یا چاند پر جانا۔ جب تک اس کو حاصل نہیں کر لیا گیا، ہمیں اس کا ٹھیک علم نہیں تھا کہ یہ کیا بھی جا سکتا تھا کہ نہیں۔
ایٹم بم کی ایجاد وہ مقام تھا جب کچھ لوگوں نے سوچنا شروع کیا تھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کے بارے میں بے لگام نہیں ہونا چاہیے اور سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی ایک مثال 1975 میں ہونے والی ایسیلومار کانفرنس تھی جو ڈی این اے ری کمبی نیشن ٹیکنالوجی کے بارے میں تھی۔ یہ اس وقت ابتدائی سٹیج پر تھی۔ سائنسدانوں نے اکٹھے ہو کر اس کی اخلاقیات اور سیفٹی پر اتفاق بنایا تھا اور طویل عرصے تک قائم رہنے والا معاہدہ کیا تھا۔ اب ڈی این اے ری کمبی نیشن ایک محفوظ اور میچور ٹیکنالوجی ہے۔
ایسے ہی خدشات مصنوعی ذہانت کے بارے میں ہیں۔ اس پر 2017 میں ہونے والی کانفرنس میں کچھ نکات پر اتفاق ہوا۔ اس کی چھٹی سفارش یہ ہے کہ “مصنوعی ذہانت کے سسٹم محفوظ ہوں گے۔ اپنے تمام لائف ٹائم کے دوران اور اسکی تصدیق کی جا سکے گی”۔ اس کی ساتویں سفارش ہے کہ “مصنوعی ذہانت کا سسٹم اگر کچھ نقصان کرے تو اس بات کی وجہ نکالی جا سکے کہ ایسا کیوں ہوا”۔ اس کی دسویں سفارش ہے کہ “مصنوعی ذہین سسٹم کے اغراض و مقاصد کو انسانی اقدار سے ہم آہنگ رہنے کی ضمانت ہونی چاہیے”۔
یعنی کہ کہ اگر ہم نے واقعی ذہین مشینیں بنانی ہیں تو اس میں اخلاقیات کا کلیدی کردار ہے۔ اور اس میں کمپیوٹیشنل ماڈل کے وہی اصول کسی طور پر ہونے ہیں جو محض پیٹرن پہچاننے کے نہ ہوں بلکہ اپنے اعمال کے نتائج دیکھنے کے ہوں۔
اور اس تک پہنچنے کیلئے ہمیں مشینوں کو اپنے عکس میں بنانا ہے۔ ہم محض ڈیٹا پراسس کرنے کی مشین نہیں، پیٹرن پہچاننے کے ماہر ہی نہیں۔ صرف رولز پر چلنے والے نہیں۔
ہم اصول توڑ بھی سکتے ہیں۔ غیرموجود متبادل حقیقتوں کا تصور کرتے ہیں اور ان کے مطابق انتخاب کرتے ہیں۔ یہ causal inference کا طریقہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قصور اور تعریف، ذمہ داری اور الزام، متبادل حقیقت کا تصور، یہ ہمارے ذہنی ماڈل ہیں۔ اور اگر ہم ایسی مشین بنا لیں تو پھر یہ سوچنے والی مشین ہماری نوع کے لئے اچھا ساتھی ہو گی۔ اور یہ ہمیں اس بات خود کو پہچاننے میں بھی مدد کرے گی کہ ہم کام کیسے کرتے ہیں۔





 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں