باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 16 جنوری، 2023

 خلائی مخلوق؟ (4)


جب ہم ایلین تہذیب کا تصور کرتے ہیں تو عام طور پر ہم خلا کی وسعتوں میں دوسرے سیاروں پر دیکھتے ہیں۔ لیکن ایک اور بہت وسیع ڈائمنشن بھی ہے۔ یہ وقت ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ پچھلے دسیوں کروڑوں سال میں زمین پر دوسری غیرانسانی ذہین تہذیبیں موجود رہی ہوں؟ بنی ہوں اور ختم ہو گئی ہوں؟ اور ان کے کارنامے ہمارے قدموں تک کہیں دفن ہوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین پر زندگی چار ارب سال سے ہے۔ زندگی کے بیشتر روپ ایک خلیے کے جانداروں کی صورت میں رہے ہیں۔ چون کروڑ سال قبل ہونے والے کیمبرین ایکسپلوژن سے جانوروں کا دور آیا۔ چون کروڑ سال بھی بہت طویل وقت ہے۔ اور اگر اس وقت میں کوئی ایلین تہذیب وجود میں آئی تو اس کو کہاں پر دیکھا جائے اور کیا مل سکتا ہے؟
ہمیں اس وقت صرف ایک تہذیب کا علم ہے جو کہ ہماری اپنی ہے۔
جسمانی لحاظ سے جدید انسان تین لاکھ سال پہلے کے ہیں، جو کہ چھوٹے گروہوں کی صورت میں دنیا میں پھیلے۔ ترقی کی رفتار سست تھی اور طرزِ زندگی کی تبدیلیاں خاص نہیں تھیں۔ (کئی مقامی ایجادات ہوتی رہیں جس سے پیچیدگی کے برسٹ آئے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریباً دس ہزار سال قبل زرعی انقلاب بڑی تبدیلی لایا۔ اس نے طرزِ زندگی میں تبدیلیاں کیں۔ بڑی آبادی ممکن کی اور ٹیکنالوجی کی ترقی بھی۔
ہم نے زمین کا چہرہ بدلا، جنگلات صاف کئے، شہر بسائے۔ زمین کے ٹائم سکیل پر یہ سب آںا فاناً اور بڑے پیمانے پر ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔    
تقریباً تین سو سال قبل ہم صنعتی نوع بن گئے۔  اور اس بڑی چھلانگ نے زمین پر ہماری تعداد اور اس پر ہونے والے ہمارے اثر میں تہلکہ آمیز اضافہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو دنیا پر ہماری تاریخ کو تین بڑے ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 97 فیصد وقت جو قدیم خانہ بدوش طرزِ زندگی کا تھا۔ 2.9 فیصد وقت جو کہ زرعی نوع کا تھا۔ اور 0.1 فیصد وقت جو کہ صنعتی تھا۔
اور یہاں پر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ زمین پر ہم بالکل ہی نووارد ہیں۔
ارضیاتی ٹایم سکیل پر سخت سے سخت جان شے بھی پائیدار نہیں۔ زمین جامد شے نہیں۔ زمین کی بڑے سکیل کی سطح میں قدیم ترین سطح صحرائے نقب کی ہے۔ اور یہ صرف اٹھارہ لاکھ سال پرانی ہے۔ اس سے پرانی کوئی بھی سطح یا تو سمندر یا برف کے نیچے ہے یا پھر زمین کے نیچے جا چکی ہے۔  
ہمارا عہد (اینتھروپوسین) چند ملین سال بعد اس میں محض چند سینٹی میٹر کی تہہ ہو گا۔
اگر ہم سے قبل ایلین تہذیبیں زمین پر رہی تھیں اور وہ بھی ان تین فیز سے گزری تھیں تو ان کی باقیات کیسی ہوں گی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خانہ بدوش ایلین۔  
ہمیں معلوم ہے کہ پچھلے چند ملین سال میں شکاری خانہ بدوش غیرانسان زمین پر رہے ہیں۔ یہ ہومو ایریکٹس، نینڈرتھال، ڈینیسووان جیسی انواع تھیں۔ (اور ممکن ہے کہ ایسی کئی دیگر انواع ہوں)۔ ہم انہیں ان کے اجسام کے ٹکڑوں، ان کے ہتھیاروں اور اوزاروں، اور ان کے آرٹ کے باقی ماندہ نشانوں سے انہیں جانتے ہیں۔
یہ بہت لمبا عرصہ رہے اور ہمیں ان کے بارے میں زیادہ علم نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ ایسا ناممکن نہیں کہ ایسے دوسرے بھی ہو سکتے ہیں۔ ذہین جانور جو کہ گفتگو کر سکتے ہوں، آگ اور اوزار استعمال کر سکتے ہوں۔ کلچر اور آرٹ رکھتے ہوں۔
اگر ایسے ایلین ٹیکنالوجی کی سیڑھی میں اوپر نہیں چڑھ سکے تو یہ ناممکن نہیں کہ ایسی سینکڑوں مختلف انواع اور کلچر چھوٹے گروہوں میں رہی ہوں جن کے نشان باقی نہیں۔ یہ پہلے حیاتیاتی اور پھر ارضیاتی پراسسز کا نشانہ بن کر گم چکی ہوں۔
اور ان کے فوسل؟ فوسل بہت کم بنتے ہیں۔ لاکھوں سال کے عرصے میں بھی کچھ اچھے فوسل ہی ہاتھ آتے ہیں۔ اس لئے ان کو مِس کر دینا آسان ہے۔ اور اگر مل بھی جائیں تو یہ شناخت کرنا کہ یہ جاندار اوزار استعمال کرتا تھا، آسان نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرعی ایلین۔
زرعی معاشرے بہت سی باقیات چھوڑتے ہیں جن کو کھود کر ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ چونکہ انہیں لاکھوں افراد کو کھلانا ہوتا ہے تو اچھے اور پائیدار اوزار بنائے جاتے ہیں۔ اور زرعی آبادیوں میں لکھائی اور کشتی رانی جیسی ٹیکنالوجی بھی آ سکتی ہے۔ حکومتیں بھی بن سکتی ہیں۔ شہر ریاستوں میں بدلتے ہیں۔ کئی سلطنتیں صدیوں تک قائم رہ سکتی ہیں۔ قدیم عمارتیں اور یادگاریں طویل عرصے تک اپنے آثار رکھ سکتی ہیں۔ کئی صرف خاکے کے طور پر جن کو مستقبل کے آرکیولوجسٹ شناخت کر سکتے ہیں۔ اہرامِ مصر چونے کے پتھر کے اتنے بڑے سٹرکچر ہیں کہ یہ غالباً لاکھوں سال تک کسی شکل میں قائم رہیں گے۔ اور ایسے معاشروں میں آبادی کی تعداد زیادہ ہوتی ہے تو ان کے نشانات ملنے کا امکان بھی۔ ان کے بنے فوسل مٹ جانے سے پہلے کئی ملین سال تک قابلِ شناخت رہ سکتے ہیں۔  
اس لئے ہم اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ ایسی کوئی غیرانسانی تہذیب پچھلے کئی ملین سال میں موجود نہیں رہی ورنہ ہمیں ان کی کوئی باقیات مل جاتیں۔
لیکن کروڑوں یا دسیوں کروڑ سال پہلے؟ جب پیچیدہ زندگی معرضِ وجود میں آ چکی تھی؟ اگر رومی یا چینی سلطنتوں کے معیار کی سلطنت اس وقت گزری ہو تو پھر اس کے نشان باقی نہیں رہے ہوں گے۔ ان کے اوزار اگر دھاتی بھی ہوں تو پھر ختم ہو چکے ہوں گے۔ اگر انہوں نے نہریں کھودی ہوں، جنگل صاف کئے ہوں، اور شہر بسائے ہوں، تو بھی اس کو قدرتی زمین سے الگ پہچاننا بہت مشکل ہو گا۔ کیا دلدلوں اور جھیلوں میں آکٹوپس کی نسل کے جانوروں نے لکڑی اور پتھر سے بنے متاثرکن شہر بسائے ہوں گے؟ ان کے انجنئیرز نے زمین کو سیراب کر کے آبی شہر بنائے ہوں؟ شاعروں نے رنگوں کی زبان میں نظمیں لکھی ہوں؟ ہو سکتا ہے کہ یہ کبھی صنعتی دور میں نہ داخل ہوئے ہوں؟ معاشرے بہت مستحکم ہوں یا تبدیلی کے خلاف مزاحمت ہو یا زرخیز اذہان نہ ہوں یا موقع ہی نہ ملا ہو؟ کوئی ایک واقعہ، جیسا کہ کوئی شہابیہ، کوئی وبا یا برفانی دور جیسی موسمیاتی تبدیلی نے ان کی تہذیب ختم کر دی ہو۔ ان کی تعمیرات مٹی بن چکی ہوں اور ان کے نرم بدن گل سڑ چکے ہوں؟
ہمارے پاس ذرہ برابر بھی شواہد نہیں جو ایسی کسی تہذیب کا بتاتے ہوں۔ اور نہ ہی ہو سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ بھی ایک کروڑ سال میں ان کی کامیابیاں خاک ہو گئی ہوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صنعتی ایلین۔
فرض کر لیں کہ آج کسی وجہ سے تمام انسان ختم ہو جاتے ہیں۔ کاسمک شعاعوں یا کسی وبا یا کسی بھی وجہ سے۔ کیا بچے گا؟
اس سیارے پر ہمارا اثر اپنے آباؤاجداد سے کہیں زیادہ ہے۔ فوسل ریکارڈ بتائیں گے کہ اس دور میں جنگلی حیات بڑے پیمانے پر معدومیت کا شکار ہوئی تھی۔ اور ایسے جانوروں کی یکایک بہتات ہو گئی تھی جن کا تعلق انسان سے ہے۔ مرغ، مویشی یا چوہے۔
ہماری بلندوبالا عمارات، سڑکیں یا کمپیوٹر ڈسک تو چند ہزار سالوں میں ہی ختم ہونے لگیں گی۔ لیکن چونکہ انسان اس قدر زیادہ تعداد میں اور ہر جگہ پر ہیں، کئی ملین سال تک ہمارے وجود کے صاف نشان باقی رہیں گے۔
ہمارے طرزِ زندگی کے بائی پراڈکٹ شاید دسیوں کروڑ سال تک اپنا اثر رکھیں۔
ہم بہت سی مصنوعی کھاد استعمال کرتے ہیں جو زمین کی نائیٹروجن کا بہاؤ بدلتے ہیں۔ کان کنی کر کے نکالے جانے والے معدنیات اور نایاب عناصر زمین پر طویل مدت کے زخم لگاتے ہیں۔ ہم سمندر کو پلاسٹک سے بھرتے ہیں جو سمندرہ کی تہہ میں دسیوں کروڑ سال تک برقرار رہ سکتا ہے۔
ایسے تابکار عناصر ہیں جو فطری طور پر اکٹھے  نہیں ہوتے۔ لیبارٹری یا ہتھیار کے علاوہ نہیں پائے جاتے۔
اور ہم نے انتہائی مختصر صنعتی تاریخ میں فوسل ایندھن کے استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تناسب بدل دیا ہے۔ سمندر کی تیزابیت بدل دی ہے۔ ہم نے ارضیاتی ریکارڈ پر بڑا نشان لگایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی تک ہمیں ماضی کی ایسی کوئی صنعتی تہذیب نہیں ملی۔ عجیب کیمیکلز کی تہہ یا عناصر جو کہ جگہ سے ہٹ کر لگ رہے ہوں۔ کوئی تابکار تہہ جو بتائے کہ ماضی کی عظیم سلطنتوں نے نیوکلئیر جنگ لڑی ہو۔
ہمیں فوسل ریکارڈ میں بڑی معدومیت کے ادوار نظر آتے ہیں۔ بڑی تبدیلیاں نظر آتی ہیں لیکن ایسے شواہد نہیں جو یہ بتاتے ہوں کہ یہ قدرتی طور پر نہیں ہوئیں۔  اور یہاں پر ایک اور دلچسپ مسئلہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر صنعتی معاشرے زمین کے ایکوسسٹم پر زیادہ بوجھ ڈالیں تو وہ خود باقی نہیں رہیں گے اور اس بوجھ تلے دب کر بالآخر ختم ہو جائیں گے۔ اس طریقے سے طویل مدت زمین پر نہیں گزارا کیا جا سکتا۔ لیکن اگر وہ زمین کے ماحول سے ہم آہنگی پاتے جائیں تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کا جیولوجیکل ریکارڈ پر پڑنے والا اثر بھی کم ہوتا جائے گا۔ اگر ماضٰ کے صنعتی معاشرے اپنے ختم ہونے سے پہلے ماحول دوست sustainable ہو چکے تھے۔ تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ یہ ایسا کوئی نشان نہیں چھوڑیں گے جن کی مدد سے ان کو پہچانا جا سکے۔
ان کے چھوڑے گئے نشان اتنے باریک ہو گئے ہوں کہ انہیں قدرتی پراسس سے الگ کرنا ممکن نہ ہو۔
اگر بالفرض بیس کروڑ سال قبل ایک صنعتی تہذیب موجود تھی جو کہ زمین پر ایک لاکھ سال گزار کر گئی (انسانی صنعتی دور سے تین سو گنا زیادہ وقت!!) تو ان کا ارضیاتی ریکارڈ مِس کر دینا آسان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ سب speculation ہے۔ ہمارے تخیلات ہیں۔ چونکہ کوئی چیز ہو سکتی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ہوئی ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہم وقت کی وسعت میں دیکھیں تو لگتا یہی ہے کہ جس طرح خلا کی وسعتوں میں غالباً کوئی غیرانسانی ذہین مخلوق نہیں، ویسے ہی وقت کی وسعتوں میں بھی۔
شاید ہم اس کائنات تنہا ہیں۔ اور تنہا تھے۔
ایسا ناممکن نہیں کہ کبھی کسی چیز کے آثار مل جائیں لیکن ایک اہم چیز ہے۔
تہذیب کا جاری رہنا گارنٹی نہیں۔ ہمیشہ کے لئے غائب ہو جانا ناممکن نہیں۔ وقت اور سپیس کی بے کراں وسعتوں میں چھائی مکمل خاموشی اس بات کی یاددہانی کرواتی ہے۔



یہ اس ویڈیو سے

https://youtu.be/KRvv0QdruMQ


1 تبصرہ:

  1. سر وہارا امباکر کی ہر تحریر جاندار اور دلچسپ ہوتی ہے ۔ اللہ ان کے علم و عمل میں اضافہ کرے

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں