باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 25 مارچ، 2023

پیالی میں طوفان (106) ۔ ری سائیکل


سمندر کی لہر دور دراز کے کسی طوفان سے توانائی لا رہی ہے۔ اس کی مدد سے یہ ساحل پر پتھر اور ریت سے ٹکرا انہیں پیس دیتی ہے۔ وقت کے ایک ذرے میں پتھر کا ایک ذرہ الگ ہو گیا۔ ساحل کے ہر کنکر کی گولائی کی صورت گری رفتہ رفتہ ایسے ہی ہوئی ہے۔
ارضیاتی ٹائم سکیل پر ساحل عارضی ہے۔ نئے پتھر اور ریت آنے کی رفتار اور ان کو توڑ کر سمندر میں لے جانے کے عمل جاری ہیں۔ ماہ و سال میں ریت سمندر کی طرف جائے گی اور واپس آئے گی۔ ہم سمندر کی لہروں کو پسند کرتے ہیں اور یہ ہمیں مدوجزر کے عمل میں اس کو دو بار روزانہ دکھاتی ہیں۔ جیسے تختی کو صاف کر دیا گیا ہو۔ اور ریت کا ملائم ساحل ہمیں اطمینان دیتا ہے۔
لیکن دہائیوں میں ساحل بڑھتا اور سکڑتا ہے۔ یہ بڑے سادہ طریقے سے ہمیں زندگی کی اپنی ناپائیداری کی مثال دیتا ہے۔ جب توانائی اور غذائیت دستیاب ہو تو تالابوں میں زندگی پنپتی اور پھلتی پھولتی ہے۔ جب بنجر دور ہوں تو پھر زندگی یہاں نہیں، کہیں اور ملے گی۔ انواع اپنے اوزاروں کے ڈبے کو ایک ایک کر کے جینیاتی میوٹیشن کے ذریعے ڈھالتی ہیں۔ توانائی کو استعمال کرنا، حرکت کرنا، رابطہ کرنا، افزائشِ نسل کرنا ۔۔۔ یہ سب ایک ہی قسم کے اصولوں کو مختلف طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توانائی آتی اور جاتی ہے لیکن زمین پر ری سائیکل کا عمل مستقل جاری ہے۔ ایلومینیم، کاربن یا سونا اربوں سال سے زمین پر ہیں۔ کبھی ایک صورت میں اور کبھی دوسری میں۔ ایسا لگے کہ تمام اشیا کو ضم ہو کر ایک بڑی سیاراتی شوربہ بن جانا چاہیے تھا۔ لیکن ہمارے گرد ہوتے فزیکل اور کیمیائی پراسس اپنی ڈگر پر جاری ہیں جو کہ اس ڈھیر کو sort کرتے ہیں۔ ایک قسم کے ایٹم کے علاقے بن جاتے ہیں۔
گریویٹی کی وجہ سے مسام دار ٹھوس میں سے مائع رستی ہے۔ اس وجہ سے پانی مٹی کے اندر چلا جاتا ہے اور زیرِ زمین بڑے aquifers بن جاتے ہیں جبکہ اوپر مٹی ویسے ہی موجود رہتی ہے۔ جب سمندر میں کیلشیم رکھنے والی چھوٹی آبی مخلوقات مرتی ہیں تو گریویٹی انہیں نیچے سمندر کی تہہ تک لے جاتی ہے۔ یہ بڑے آبی قبرستان دبتے اور شفٹ ہوتے ہیں اور سفید چونے کے پتھر بنتے ہیں۔ نمکیات کے ذخائر کم گہرے سمندروں میں بنتے ہیں کیونکہ پانی آسانی سے بخارات میں بدل جاتا ہے لیکن نمک نہیں۔
سمندر کی تہہ میں اگلا جانے والا آتش فشانی  لاوا پانی سے بھاری ہوتا ہے اور تہہ تک رہ جاتا ہے۔ یہ زمین کی نئی تہہ بناتا ہے۔ اور زندگی خود اپنے گرد کی دنیا میں سے اپنے مطلب کے میٹیریل چن رہی ہے، ان کو شکل دیتی ہے اور ان کی تشکیلِ نو کرتی ہے۔ اور پھر مرنے کے بعد اپنا ملبہ دوبارہ استعمال کے لئے چھوڑ جاتی ہے۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں