باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 20 مارچ، 2023

پیالی میں طوفان (96) ۔ زمین ایسی کیوں ہے؟


یہ 1950 کی دہائی تھی۔ انسانی تہذیب ٹیکنالوجی اور سائنس کے نئے عہد میں داخل ہو رہی تھی اور آج کی جدید سوسائٹی کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں۔ گھروں میں برقی آلات داخل ہو رہے تھے۔ ایٹمی دور آ چکا تھا۔ نئی سماجی اقدار کی آمد تھی۔ کریڈٹ کارڈ ابھی ابھی ایجاد ہوئے تھے۔ اور اس سب برق رفتار ترقی کے درمیان میں ہمارے لئے اپنے سیارے کی کوئی تک نہیں بن رہی تھی۔ ماہرینِ ارضیات زمین کی چٹانوں کو تفصیل سے کیٹالاگ کر رہے تھے لیکن اس سب کی وضاحت سے قاصر تھے۔ پہاڑ کہاں سے آئے؟ یہ والا آتش فشاں یہاں پر کیوں ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ کچھ پتھر پرانے ہیں اور کچھ نئے؟ اور پتھر اتنی مختلف اقسام کے کیوں ہیں؟
ایک اور عجیب چیز اپنے وضاحت کے لئے پکار رہی تھی کہ افریقہ کا مغربی ساحل اور جنوبی امریکہ کا مشرقی ساحل ایسے کیوں لگ رہے ہیں کہ ایک ہی معمے کے ٹوٹے حصے ہوں؟ ان کی چٹانیں مطابقت رکھتی تھیں، شکلیں مطابقت رکھتی تھیں، فاسل مطابقت رکھتے تھے۔ لیکن کیا یہ سب محض اتفاق تھا؟ یا اس کی وضاحت کچھ گہری تھی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیادہ تر سائنسدان اس پر “محض اتفاق” کے جواب سے مطمین تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ غیراہم سوال ہے اور اس کی وجہ انسانی ذہن کا patterns کو بلاوجہ جوڑنا ہے۔ یہ ناممکن ہے ہے کہ اتنے بڑے براعظم ہلائے جا سکتے ہوں۔ لیکن ایک جرمن محقق الفریڈ ویگنر “محض اتفاق” والے جواب سے مطمئن نہیں تھے۔
ویگنر  شواہد اکٹھے کرنے لگے اور continental drift کا نظریہ پیش کیا۔ ویگنر نے تجویز کیا تھا کہ جنوبی امریکہ اور افریقہ کسی وقت میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ زمین کا یہ بڑا حصہ ٹوٹا اور سرکتا ہوا ہزاروں میل دور چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے لئے انہوں نے تین الگ طریقوں سے شواہد اکٹھے کئے۔
۱۔ زمین پر زندگی کی باقیات
یہ تلاش رینگنے والے ایک جانور کی باقیات سے شروع ہوئی۔ افریقہ کے مغرب اور جنوبی امریکہ کے مشرق میں اس کے فوسلز زمین کے ایک ہی وقت میں ملے اور دونوں اطراف میں اس کی معدومیت بھی اکٹھے ہوئی۔ یہ تیرنا نہیں جانتا تھا۔ یہ کیسے؟ کیا ہزاروں کلومیٹر دور اس کا ارتقا اور پھر معدومیت اکٹھے ایک ساتھ ہوئی؟ یا پھر کہیں درمیان میں برف تو نہیں تھی؟ پھر کئی دوسرے جانوروں اور پودوں کے فوسلز کا مشاہدہ کیا تو اسی طرح کا نتیجہ نکلا جو اشارہ کرتا تھا کہ یہ سب ایک ٹکڑا تھا۔
۲۔ چٹانیں
شمالی امریکہ اور یورپ کے ساحلوں پر چٹانوں کی ساخت کے مطالعے سے پتہ لگا کہ ان کے پیٹرن بالکل ایک جیسے تھے جیسا کسی نے ان کو درمیان سے توڑ دیا ہو۔ کیا یہ محض اتفاق تھا کہ دونوں طرف چٹانیں ایک جیسے تھیں یا پھر یہ سب کبھی ملی ہوئیں تھیں۔
۳۔ موسم کے اثرات
گلیشئیر اپنی حرکت سے زمین پر نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ آج کی دنیا میں یہ قطبین پر یا اونچے پہاڑوں پر ہیں۔ افریقہ اور جنوبی امریکہ کے خطِ استوا کے قریب علاقوں میں بھی گلیشئیرز کی حرکت کے نشان ملے جو یہ بتاتے تھے کہ یہ کبھی سرد علاقے تھے۔ دوسری طرف کوئلے کے ذخائر جو ٹراپیکل جنگل کے درختوں سے بنتے ہیں، وہ قطبِ شمالی اور جنوبی کے قریب بھی ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ یہ کبھی خطِ استوا کے قریب تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویگنیر اپنی زندگی میں ان تین زاویوں سے شواہد اکٹھے کرتے رہے۔ اسی تلاش میں قطبِ شمالی کی طرف کا سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا اور طوفان میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لیکن ویگینیر کے کام کو پذیرائی نہ ملی۔
اتنے بڑے برِاعظم آخر کیسے ہزاروں کلومیٹر دور گھوم پھر سکتے ہیں؟ سائنسدانوں کے حلقوں میں اسکو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ اور لیا بھی کیسے جا سکتا تھا۔ اگر یہ درست تھا تو بھلا یہ دھکا لگ کیسے رہا تھا؟ یہ خیال کہ ایک برِاعظم جیسی بڑی شے سرکتے ہوئے پانچ ہزار کلومیٹر دور چلی جائے؟ یہ مضحکہ خیز تھا۔
 کیوں؟ کیسے؟ ان سوالوں کے جواب نہیں تھے۔ ویگنر کی تھیوری سردخانے کا حصہ بن گئی۔ کسی اور کے پاس بہتر آئیڈیا نہیں تھے اور ان سوالوں کو اکیلا چھوڑ دیا گیا۔
(جاری ہے)


 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں