باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 14 جون، 2023

ضدی اقلیت (3)


یہ آئیڈیا ہمیں کئی اور غلط فہمیوں کے ازالے میں مدد کرتا ہے۔  مثال کے طور پر، کسی کتاب پر پابندی کیسے لگتی ہے؟ زیادہ تر لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ صرف چند ایسے ایکٹوسٹ درکار ہیں جو اتنی پرواہ کرتے ہوں کہ اس کے لئے شور ڈالیں۔
کسی معاشرے میں اخلاقی اقدار اس وجہ سے نہیں پنپتیں کہ لوگ ان پر متفق ہو جاتے ہیں۔ صرف ضدی لوگ سب پر اپنی اقدار مسلط کر سکتے ہیں۔ انسانی حقوق، سول رائٹس یا آزادی کی تحریکیں بھی ایسے ہی کامیاب رہتی ہیں۔
ایک بار ایک اخلاقی اصول اسٹیبلش ہو جائے تو چھوٹی اور ضدی اقلیت اس کو یقینی بناتی ہے کہ معاشرہ اس پر عمل پیرا رہے۔
اقلیت کا اصول، اچھائی اور برائی، دونوں کے لئے کام کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر سیاسیات کے لئے ایک دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جمہوریت اپنے دشمن برداشت کر سکتی ہے؟۔ مثلاً، سوال یہ ہے کہ “اگر کسی جماعت کا منشور آزادی اظہار رائے کو سلب کرنا ہو تو کیا ایسی جماعت کو آزادی اظہار رائے کا حق دیا جانا چاہیے؟”۔ یا اگر اس سے آگے بڑھیں تو “کیا روادار معاشرہ کسی گروہ کی طرف سے عدم برداشت کو برداشت کر سکتا ہے؟”  
یہ وہ سوال ہے جو کہ کرٹ گوڈل نے جج سے وقت کیا تھا جب وہ اپنی شہریت کا انٹرویو دے رہے تھے۔ کرٹ گوڈل منطق کے گرینڈماسٹر تھے۔اور کہانی یہ کہی جاتی ہے کہ آئن سٹائن (جو اس وقت گواہ تھے) نے انہیں اس بحث سے بچایا تھا۔ کارل پوپر نے بھی جمہوریت میں اس عدم ربطگی پر بات کی تھی۔
اس سوال کا جواب دراصل اقلیت کے اصول میں ہے۔ عدم برداشت رکھنے والی اقلیت جمہوریت کو تباہ کر سکتی ہے اور تضاد یہ ہے کہ روادار معاشرے میں ایسا کیا جانا آسان ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ عدم برداشت رکھنے والوں کے ساتھ کم برداشت روا رکھنا معاشرے کی صحت کے لئے لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس بھی ایسے ہی assymetry رکھتی ہے۔ رچرڈ فائنمین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ “سائنس میں اس بات کی پرواہ نہیں کہ دوسرے سائنسدانوں کی کیا رائے ہے۔ اگر ایک بات ایک بات غلط ثابت ہو گئی تو یہ غلط ہے۔ کہانی ختم۔ اگر سائنس اکثریت کے اتفاق پر چلتی تو آج ہم قرونِ وسطیٰ کے خیالات میں ہی پھنسے ہوتے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پرانا مشہور قول جسے سکندرِ اعظم سے منسوب کیا جاتا ہے کہ “بھیڑوں کی وہ فوج بہتر ہے جس کا سربراہ شیر ہو۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ شیروں کی فوج پر بھیڑ سربراہ ہو۔” اس قول کا خالق بہادر، متحرک اور ضدی اقلیت کی طاقت سے واقف تھا۔
ضدی بہادری سے ہونے والا بڑا فائدہ صرف عسکری میدان کا ہی نہیں۔ مارگریٹ میڈ لکھتی ہیں، “یہ کبھی شک نہ کرنا کہ ایک چھوٹا گروپ جو سمجھدار شہریوں پر مشتمل ہو، دنیا کو بدل سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے یہ کام صرف ایسے ہی ہوا ہے”۔
پورے معاشروں کی ترقی، خواہ معاشی ہو یا اخلاقی، ہمیشہ تھوڑی تعداد میں متحرک لوگوں سے ہی آئی ہے”۔






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں