باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 27 جون، 2023

سوشل میڈیا اور آزادی (۳)


سوشل نیٹورک، موبائل فون اور پیغام رسانی کی ایپ اجتماعی ایکشن لینے کے لئے مددگار ہیں۔ یہ ممکن کرتی ہیں کہ افراد رابطہ کر سکیں۔ عسکری حکمتِ عملی پڑھنے والے آپ کو بتائیں گے کہ تنظیم کا سب سے طاقتور طریقہ افراد کا آپس کا نیٹورک ہے۔ سوشل میڈیا ایسی اجتماعی شئیرنگ کے لئے اچھا ہے لیکن اجتماعی تعمیر سے زیادہ اجتماعی تخریب کے لئے موثر رہا ہے۔ “کچھ بھی کرنے کی آزادی” تخریب کی آزادی بھی لے آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاہرہ کے وائل غنیم کا سوشل میڈیا کے ذریعے 2011 میں مصر میں انقلاب میں کردار تھا۔ دسمبر 2015 میں انہوں نے اپنے ایک لیکچر میں یہ سوال کیا کہ “کسی وقت میں میرا خیال تھا کہ کسی معاشرے کو آزاد کرنے کے لئے صرف انٹرنیٹ کافی ہے۔ میں غلط تھا۔ وہی ٹیکنالوجی جس نے لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک آمر کا تختہ الٹنے میں مدد کی، اسی نے ہمارا معاشرہ توڑ پھوڑ دیا۔
جون 2010 میں ایک روز انٹرنیٹ نے میری زندگی ہمیشہ کے لئے بدل دی۔ فیس بک پر میں نے ایک تصویر دیکھی۔ ایک نوجوان مصری کی لاش تھی جسے پولیس نے تشدد کر کے مارا تھا۔ اس 29 سالہ نوجوان کا نام خالد سید تھا۔ میں نے فیس بک کا ایک پیج بنایا جس کا نام “ہم سب خالد سید ہے” رکھا۔ تین روز میں ہی لاکھوں فالوور بن گئے”۔
اس پیج نے آمرانہ حکومت کے خلاف لوگوں کا اکٹھا کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ ایک تحریک شروع ہو گئی جس کا کوئی راہنما نہیں تھا جس وجہ سے اسے روکنا ممکن نہیں تھا۔ قاہرہ کی خفیہ ایجنسی نے بالآخر اس کا پتا لگا یا۔ غنیم کو پکڑ لیا گیا۔ مارا پیٹا گیا اور باندھ کر تنہا قیدخانے میں ڈال دیا گیا۔ گیارہ روز بعد آزادی ملی۔ اس سے تین روز بعد وہ سوشل میڈیا ہیرو بن چکے تھے۔ زیادہ وقت نہیں لگا اور حسنی مبارک کا طویل راج ختم ہو گیا۔
“جلد ہی یہ سب جوش مدہم پڑنے لگا۔ کیونکہ سیاسی تحریک کوئی اتفاق رائے بنانے میں ناکام رہی تھی۔ کسی کے خلاف اکٹھے ہو جانا آسان ہے۔ افواہیں، پراپگینڈا اور منفی تحریر آسان ہے۔ زہریلا ماحول بن جاتا ہے۔ آن لائن دنیا جھوٹ اور نفرت سے بھری ہوئی ہے۔ ایک طرف فوج کے سپورٹر تھے اور ان کے مخالف مذہبی تحریک کے۔ بات اس حد تک پہنچ گئی کہ فوج نے باقاعدہ طور پر سوشل میڈیا پر پیج بنا لئے اور اس کے لئے ٹیم بھرتی کر لی۔ دونوں اطراف کے طریقے ایک سے تھے۔ معتدل درمیان سے غائب ہونے لگے۔ انہیں توجہ ہی نہیں ملتی تھی۔
سوشل میڈیا کا ہیجان انسانی فطرت کا نتیجہ ہے۔ ہم سماجی معاملات میں معاملہ فہمی رکھتے ہیں۔ لیکن ٹیکنالوجی ایک شخص کے لئے وہ کرنا ممکن کر دیتی ہے جو کہ اس کے لئے عام دنیا میں اخلاقیات کے منافی ہوتا ہے”۔
غنیم کے مطابق آج سوشل میڈیا کے سیاسی دنیا میں استعمال کے ساتھ پانچ مسائل ہیں۔
پہلا: جھوٹ اور افواہیں۔ ایسی افواہیں جو ہمیں پسند آئیں اور جن پر ہم یقین کرنا چاہیں، ان پر یقین کر کے ہم آگے پھیلا دیتے ہیں۔ جھوٹ لوگوں کے ذہنوں میں اصل ہو جاتے ہیں۔
دوسرا: ہم اپنے جیسے لوگوں کی گونج میں رہتے ہیں۔ وہ، جن سے ہم اتفاق کرتے ہیں۔ جو ہمیں پسند نہ آئیں، اسے میوٹ یا بلاک یا نظرانداز کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب صرف اپنے جیسے خیالات کی بھرمار میں نکلتا ہے جو مخالف رائے کو سمجھنا دشوار کر دیتا ہے۔
تیسرا: آن لائن بحث بہت جلد غصے میں بدل جاتی ہے اور آپ بھول جاتے ہیں کہ دوسری طرف بھی ہمارے جیسا انسان ہی بیٹھا ہے۔
چوتھا: اپنے رائے انٹرنیٹ پر بدلنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا میں اختصار اور رفتار ہے۔ سوچ بچار کا مواد بہت کم ہے۔ اور بہت جلد اس پیچیدہ دنیا کی پیچیدگی کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے سفید یا سیاہ رائے قائم کرنا ہوتی ہے۔ اور اپنی لکھی ہوئے رائے بدلنے یا واپس لینے کا حوصلہ کرنا ہی مشکل ہے۔
پانچواں: اور شاید سب سے اہم: سوشل میڈیا کا ڈیزائن کسی پر بات بنانے کے لئے ہے نہ کہ کوئی بات بنا لینے کے لئے۔
ایسی پوسٹ جو سنسنی خیز ہو، یکطرفہ ہو، ہیجان برپا کرے ۔۔۔ زیادہ توجہ کھینچتی ہے۔ (اس کے سچ ہونے کی اہمیت زیادہ نہیں)۔ گہری باتوں کو توجہ کم ملتی ہے۔
پانچ سال پہلے میں نے کہا تھا کہ معاشرے کو آزاد کرنے لئے صرف انٹرنیٹ ہی کافی ہے۔ آج میرا خیال یہ ہے کہ ہمیں سوشل میڈیا کی اصلاح کی ضرورت ہے۔”    
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاسی آزادی کا تصور دو طرح کا ہے۔ ہم خواہش رکھتے ہیں کہ ہمیں اس چیز کی آزادی ہو کہ ہم اپنی مرضی سے زندگی گزار سکیں۔ ایسی آزادی آئین، قانون کی حکمرانی، لوگوں کی امورِ اجتماعی میں شرکت اور بڑی حد تک متفقہ سماجی معاہدے سے آتی ہے۔ یہ “اپنے لئے” آزادی ہے۔
ایک اور تصور کسی سے آزادی ہے۔ کسی ناپسندیدہ حکمران، کالونیل طاقت، غیرمطلوب قانون یا نظام سے آزادی ہے۔ دوسری طرح کی آزادی لینا آسان ہے۔  
انٹرنیٹ رابطہ تو کروا سکتا ہے لیکن یہ سیاسی تنظیموں، کلچر یا قیادت کا متبادل نہیں۔ مارک موزر لکھتے ہیں۔
“کسی جبر سے آزادی نسبتاً آسان ہے۔ لیکن انقلاب عام طور پر پہلے سے زیادہ بری صورتحال پر متنج اس لئےہوتے ہیں کہ یہ عام طور پر ایک جبر سے ایک نئے قسم کے جبر کی طرف لے جاتا ہے۔ انٹرنیٹ کسی سے آزادی کے لئے تو کام کرتا ہے لیکن اس پر بننے والی کوئی بھی تحریک اس سوال کا جواب نہیں دے سکتی کہ انقلاب سے اگلی صبح کیا ہو گا۔ اس لئے سیاسی اور سماجی تبدیلی میں یہ تقریباً ہمیشہ اس کا کردار منفی رہتا ہے”۔    
جب تک منظم ہونے اور سماجی ذمہ داری کے بارے میں ہم پرانے سبق دوبارہ نہیں سیکھیں گے تو ہم World of disorder کو بڑھتے دیکھیں گے۔ کیونکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لئے “کسی سے آزادی” آسان تر ہو جائے گی لیکن اپنے لئے آزادی مشکل تر۔

 

یہ اس سے لیا گیا۔


Inequality of Freedom by Thomas Friedman

 

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں