باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 23 جون، 2023

تارکینِ وطن (۲)



ہم سینیگال سے صحرا کے دوسری طرف جائیں تو نائیجر میں آغادیز ہے۔ سوموار کی شام کو ہزاروں نوجوان مرد کاروان ٹویوٹا پک اپ میں لدے آتے ہیں۔ یہ لیبیا کے راستے سے گزر کر یورپ کے لئے کشتی پکڑنے کی امید میں ہوتے ہیں۔ یہ ایک عجب نظارہ ہے۔ چاند کی روشنی میں خاموش صحرا اچانک جاگ اٹھتا ہے۔
مقامی انسانی سمگلر وہاٹس ایپ کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ ایک پک اپ پر پندرہ لوگ سوار ہیں۔ اس سے چوکنا ہیں کہ کوئی سرحدی گارڈ یا پولیس سے مڈبھیڑ نہ جائے۔ ایک سے دو سو کے درمیان گاڑیوں کا یہ قافلہ اکٹھا اس لئے جاتا ہے کہ صحرا کے لٹیروں سے محفوظ رہ سکے۔
کسی وقت میں یہ سیاحت اور تجارت کا مرکز تھا۔ گارے سے بنی منفرد عمارتیں اس کی نشانی ہیں۔ مسجد آغادیز کا ستائیس میٹر اونچا مسجد کا مینار اپنی طرز کی دنیا کی سب سے اونچا سٹرکچر ہے۔ یہ یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہیں۔
اب سیاحوں کی گاڑیاں انسانوں کی تجارت میں کام آتی ہیں۔ ایک سمگلر کے مطابق، “پہلے ہم سیاحت کی صنعت سے وابستہ تھے۔ اب یہاں سیاحت ختم ہو چکی لیکن گاڑیاں تو ہیں۔ ہم اپنا روزگار انسانوں کو ٹرانسپورٹ کر کے کماتے ہیں”۔
گاڑیوں پر سوار لوگوں کی ایک جیسی کہانیاں ہیں۔ سیناگال کے لہجے میں فرنچ زبان بولنے والے نوجوان یہی بتاتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں کام نہیں تھا تو شمال میں شہر چلے گئے۔ شہر میں کام نہیں تو مزید شمال جا رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر اور ایسی دوسری جگہوں پر کہانی کیا ہے۔ صحرا بڑھ رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں اور آبادی کے بڑھنے میں تیزرفتاری اس کو دوچند کر دیتی ہیں۔ قبائلی جنگیں اور نسلی جھگڑے ان بنیادی مسائل کی وجہ سے ابھرتے ہیں۔ اور انٹرنیٹ پر یہ لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ اس سے بہتر زندگی بسر کی جا سکتی ہے۔ پک اپ کے قافلے کا حصہ بننا ایسی امید دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پناہ گزینوں کی اس آبادی میں ایک عجیب چیز ہے۔ آج دنیا میں اپنے علاقوں سے دوسری طرف کی نقل مکانی کی کوشش کرنے کے پیچھے ریاستوں کی جنگیں نہیں ہیں بلکہ ریاستوں کا انہدام ہے۔ دنیا میں ممالک کی آپس میں جنگوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن ممالک کے اندر عدم استحکام شدید ہو رہا ہے۔ تیس ممالک خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ اپنی شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے یا انہیں امن دینے سے قاصر ہیں۔
اپنے بچوں کو خطرناک اور ممکنہ طور پر جان لیوا سفر پر دور دراز بھیج دینا بے آس ہونے کی انتہا ہے۔ لوگ اپنی جگہ سے نقل مکانی کسی نظریے، کسی عظیم مقصد کے لئے نہیں کرتے۔ روزگار، امن، بہتر مستقبل کی کشش کھینچتی ہے۔ بھوک، بے روزگاری، بدامنی، غیریقینیت، اپنی جگہ سے دھکیلتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسمیاتی تبدیلیاں اور آبادی کا بڑھنا وہ محرکات ہیں جو سیاسی بدامنی لے کر آتے ہیں۔ اور یہ سب ملکر عالمی نقل مکانی کا محرک ہیں۔
منڈی، قدرت اور بے قابو طریقے سے بڑھتی آبادی کمزور ریاستوں کو کمزور تر کر رہے ہیں۔
اور اگر کوئی ملک انہدام کی طرف جانے لگے تو اس کی سمت واپس موڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اپنی آبادی کو تعلیم اور مواقع دینا، عالمی برادری کا حصہ بننے کے لئے انفراسٹرکچر، جدت اور تخلیق کاری ۔۔۔ معیشت کی نمو کے لئے یہ سب لازم ہے۔ اور ایسے ملک جو سیاسی مسائل سے دوچار ہو جائیں، ان کے لئے ایسا کرنا مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔ اگر آپ کے ملک نے دہائیوں سے خود کو تباہ کرنے میں استعمال کی ہیں تو کوئی بھی باہر سے آ کر آپ کی مدد نہیں کرے گا۔ آپ اس میں تنہا ہیں۔
اور اس میں مزید دشواری پیدا کرنے والا ایک اور فیکٹر ہے۔ انٹرنیٹ۔  تمام تر شواہد اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا اس افراتفری اور ہنگامہ آرائی کو چار چاند لگا دینے والی ٹیکنالوجی ہے جو اپنی اجتماعی ہیجان انگیزی کی وجہ سے کمزور ریاستوں کو انہدام کی طرف لے جا رہی ہے۔
(جاری ہے)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں