باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 8 اگست، 2023

ذہانت (33) ۔ بیز کا میز


بیز اٹھارہویں صدی کے وسط میں برطانیہ میں ایک مذہبی راہنما اور ریاضی دان تھے۔ان کو تھامس بیز کو ایسا ہی مسئلہ درپیش تھا۔ وہ اپنے مضمون میں اس کی وضاحت ایسے کرتے ہیں۔
“فرض کیجئے کہ آپ ایک چوکور میز کی طرف پشت کر کے بیٹھے ہیں۔ آپ دیکھ نہیں رہے لیکن میں میز پر ایک سرخ گیند پھینکتا ہوں۔ آپ نے اندازہ لگانا ہے کہ یہ کہاں پر گری۔ یہ آسان نہیں ہے۔ آپ کے ایسی کوئی انفارمیشن نہیں کہ آگے بڑھ سکیں۔ یہ بتا سکیں کہ یہ میز پر کہاں ہے۔
آپ کی مدد کرنے کے لئے میں ایک دوسرے رنگ کی گیند اسی میز پر پھینکتا ہوں۔ آپ نے سرخ گیند کی جگہ ہی معلوم کرنی ہے لیکن اب میں یہ بتا دیتا ہوں کہ دوسری گیند کے مقابلے میں یہ کہاں پر ہے۔ اس سے آگے ہے یا پیچھے ہے۔ دائیں ہے یا بائیں ہے۔ آپ اپنے اندازہ اپڈیٹ کر سکتے ہیں۔
ہم اسے دہراتے جاتے ہیں۔ تیسری، چوتھی اور پانچویں گیند کے ساتھ۔ اور ہر بات میں یہ بتاتا ہوں کہ سرخ کے مقابلے میں یہ کہاں پر ہے۔
جتنی زیادہ گیندیں میں پھینکوں گا اور جتنی زیادہ انفارمیشن دیتا جاؤں گا، آپ کے ذہن میں تصویر واضح ہوتی جائے گی۔ آپ کبھی بھی مکمل یقین کے ساتھ اس کی جگہ نہیں بتا سکیں گے لیکن ہر بات اپڈیٹ ہونے والے یقین کی وجہ سے آپ ایسے جواب تک پہنچ جائیں گے جس پر آپ کو اعتبار ہو”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور خودکار گاڑیوں کی اصل جگہ کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔ الگورتھم اس میں گاڑی کی درست جگہ کی معلومات اپڈیٹ کر رہا ہے۔ اور اس کے پاس دوسری گیندیں نہیں بلکہ متفرق ڈیٹا کے ذرائع ہیں۔ جی پی ایس۔ انرشیا کی پیمائش وغیرہ۔ ان میں سے کوئی بھی الگورتھم کو یہ نہیں بتاتا کہ گاڑی کہاں ہے لیکن ہر کوئی انفارمیشن کا اضافہ کرتا ہے اور الگورتھم اس کو اپنے یقین کو اپڈیٹ کرنے میں استعمال کرتا ہے۔
اس حربے کو probabilistic inference کہتے ہیں۔ اور اسے درست طور پر پیکج کیا جائے تو یہ مشین لرننگ کے الگورتھم کا ایک اور طریقہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکیسویں صدی کی آمد تک انجینر کروز میزائل، راکٹ، جہاز جیسی چیزوں کے ساتھ مشق کر چکے تھے کہ جگہ کے مسئلے کو کیسے حل کرنا ہے۔ بغیر ڈرائیور کے گاڑی کے لئے “میں کہاں ہوں” آسان نہیں تھا لیکن بیز کے تھیورم کی وجہ سے یہ ممکن تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈارپا کا 2004 کا چیلنج خودکار روبوٹ کا قبرستان تھا جبکہ اگلے سال میں ہونے والی شاندار ترقی جس میں پانچ الگ گاڑیوں نے سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے فاصلہ طے کیا، یہ بیز کے مرہونِ منت تھا۔ بیز کے آئیڈیا پر بنے الگورتھم اس سوال کو حل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے جو ایک گاڑی کو مطلوب تھے۔ “میرے ارد گرد کیا ہے”۔ “مجھے کرنا کیا چاہیے”۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں