باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 8 اگست، 2023

ذہانت (32) ۔ شاہد آفریدی؟


اس بات میں مبالغہ نہیں کہ بیز کا تھیورم تاریخ کے اہم ترین خیالات میں سے ہے۔ سائنس، شماریات اور مشین لرننگ کے ماہرین میں بہت مقبول ہے۔ اور اس کا بنیادی خیال بہت سادہ ہے۔ اتنا سادہ کہ آپ پہلی بار ایسا سمجھیں کہ اس میں آخر خاص بات کیا ہے۔
فرض کیجئے کہ آپ ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے ہیں۔ آپ کا دوست جھک کر آپ کے کان میں کہتا ہیں کہ آپ کے پیچھے کونے والے میز پر شاہد آفریدی بیٹھے ہیں۔
مڑ کر دیکھنے سے پہلے، آپ کو اندازہ ہو گا کہ دوست کی بات پر کتنا اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ یقین آپ کے اس دنیا کے بارے میں علم سے آتا ہے۔ یہ ریسٹورنٹ کونسا ہے۔ کس جگہ پر ہے۔ آپ کے دوست کی نظر کتنا اچھی ہے اور اس کی بات کو کتنا مانا جا سکتا ہے، وغیرہ۔ یہ اس علم کی بنیاد پر بنا آپ کا نقطہ نظر ہے۔ اور اس یقین پر ایک نمبر لگایا جا سکتا ہے۔ اس کو درست ہونے کا امکان کہہ لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جب آپ نے مڑ کر دیکھا تو اس دوران ہر انفارمیشن کی بنیاد پر آپ کے اپنے دوست کے ہائپوتھیسس پر اعتبار میں فرق پڑ رہا ہے۔ مدہم روشنی میں اس شخص کے جھکے ہوئے سر کے ہلکے بھورے بال؟ یقین کا نمبر اوپر چلا گیا۔ لیکن اس کے ساتھ کوئی بھی اور نہیں؟ نمبر نیچے چلا گیا۔ نقطہ یہ ہے کہ ہر نیا مشاہدہ مجموعی تعین میں فرق ڈال رہا ہے۔
اور بس یہی بیز کا تھیورم ہے۔ یہ ایک طریقہ ہے جس کے تحت آپ مشاہدے کی بنا پر اپنا یقین اپڈیٹ کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیز تھیورم میں آپ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کبھی بھی کوئی چیز مکمل یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے لیکن آپ دستیاب انفارمیشن کے مطابق اچھا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
اور جب آپ نے اس شخص کا چہرہ دیکھ لیا جس کی شباہت ویسی ہی ہے جو آپ نے ٹیلی ویژن پر دیکھی تو یہ یقین اس حد سے آگے بڑھ گیا اور آپ نے نتیجہ نکال لیا کہ واقعی شاہد آفریدی ہی کھانا کھا رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن بیز تھیوری صرف ایک مساوات نہیں جس کی بنیاد پر انسان فیصلے لیتے ہیں۔ یہ اس سے بہت اہم ہے۔ برش مک گرین لکھتے ہیں کہ
“بیز کا تھیورم اس گہرے یقین کے خلاف ہے کہ جدید سائنس کو معروضیت اور پریسیژن درکار ہے۔ یہ ایسا میکانزم دیتا ہے کہ آپ کسی یقین کی پیمائش کر سکیں۔ یہ ناکافی مشاہدات سے معقول نتیجے تک پہنچے کا راستہ دیتا ہے۔ نامکمل، بے ترتیب، گڈمڈ اور اندازے سے حاصل کردہ ڈیٹا سے بھی۔ حتیٰ کہ لاعلمی سے بھی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیز صرف پہلے سے طے شدہ نتائج پر چھلانگ لگانے کا طریقہ نہیں۔ بلکہ جیسا کہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر اپنے یقین کی پیمائش کی جائے تو نئے نتائج تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ اس بات کی وضاحت بھی کرتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ قاتلوں کی غلط شناخت میں دھر لئے جانے والوں میں بھاری اکثریت میں مرد ہی کیوں ہوتے ہیں (انصاف والے باب میں اس پر تفصیل ہے)۔ یا پھر اگر چھاتی کے کینسر کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے تب بھی اس بات کا اچھا امکان کیوں ہے کہ آپ کو کینسر نہیں ہے۔ سائنس کی تمام شاخوں میں بیز ایک طاقتور اوزار ہے جو ہمیں اس بات کو خود سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ درحققیت ہم جانتے کیا ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں پر بیز کا طریقہ اپنی سب سے زیادہ افادیت دکھاتا ہے، وہ ہے جہاں پر آپ کو ایک سے زائد ہائپوتھیسس کا تجزیہ بیک وقت کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، کسی مریض کی تشخیص کرتے ہوئے علامات میں سے معنی اخذ کرنے ہیں۔ یا پھر ڈرائیور کے بغیر گاڑی کو اپنے سنسر کے ڈیٹا کی مدد سے اپنی جگہ پہچاننی ہے۔ کوئی بھی بیماری یا نقشے پر کوئی بھی نقطہ سچ ہو سکتا ہے۔ لیکن آپ نے یہ جاننا کہ درست ہونے کا سب سے زیادہ امکان کہاں پر ہے۔
(جاری ہے)




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں