باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 12 اگست، 2023

ذہانت (37) ۔ فلائٹ 447


پئیر بونن پائلٹ کے طور پر ائیر فرانس میں 26 سال کی عمر میں شامل ہوئے تھے۔ جب انہوں نے اکتیس مئی 2009 کو AF447 کی اس پرواز میں قدم رکھا تو انہیں ائیرلائن میں چھ سال ہو چکے تھے۔
برازیل سے پیرس آنے والا یہ جہاز ائیربس A330 تھا۔ اس کا خودکار سسٹم اتنا ایڈوانسڈ تھا کہ عملی طور پر یہ پوری پرواز بغیر مدد کے مکمل کر سکتا تھا، ماسوائے صرف ٹیک آف اور لینڈ کرنے کے۔ اور جب کنٹرول پائلٹ کے پاس ہو، تب بھی اس میں کئی طرح کے سیفٹی فیچر تھے جو انسانی غلطی کا امکان کم سے کم کر سکیں۔
لیکن ایسے خودکار سسٹم کا ایک خطرہ ہے۔ اگر پائلٹ کی ضرورت صرف استثنائی صورتحال میں ہے تو پھر اس کیلئے آپریٹ کرنے کی صلاحیت برقرار رکھنا کم ہوتا جائے گا۔ تجربہ فیصلے لینا سکھاتا ہے اور یہ کم ہوتا جائے گا۔
 اور اس روز فلائٹ میں ایسا ہی ہوا۔ اگرچہ بونن کے پاس جہاز کی کاک پٹ کے 2936 گھنٹوں کا تجربہ تھا۔ لیکن اپنے ہاتھ سے اسے اڑانے کا نہ ہونے کے برابر۔ کیونکہ ان کا تقریباً تمام کام آٹو پائلٹ کو دیکھنے تک محدود رہا تھا۔ اور اس کا مطلب یہ کہ جب اس روز آٹو پائلٹ نے اپنا کنٹرول انسان کے حوالے کیا تو کئی سال کے باوجود پائلٹ ناتجربہ کار تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب رفتار کے سنسر پر برف کے کرسٹل بننے لگے۔ اس کی ریڈنگ درست نہ رہنے کی وجہ سے آٹوپائلٹ نے الارم بجا دیا کہ اب انسان اس صورتحال کو سنبھالے۔ عام طور پر ایسا ہونے کے ساتھ مسئلہ نہیں۔ یہ غیرمعمولی صورتحال نہیں تھی۔
جب جہاز اس حالت میں ہوا کی ایک پاکٹ سے ٹکرایا تو ناتجربہ کار پائلٹ اس وقت میں اوور ری ایکٹ کر گئے۔ جہاز دائیں طرف ہلکا سا رول ہونے لگا۔ بونن نے سٹک کی مدد سے اسے بائیں طرف کر دیا۔ اہم چیز یہ کہ اس وقت انہیں نے سٹک کو پیچھے کی طرف بھی کھینچ دیا۔ اور اس سے جہاز بلند ہونے لگ گیا۔
جہاز کے گرد فضا مہین ہونے لگی۔ بونن نے سٹک کو مضبوطی سے تھاما ہوا تھا۔ جہاز کی بلندی کے ساتھ اب اس کی ناک اوپر کی طرف ہو گئی۔ اس کے لئے اڑنا مشکل ہو گیا۔ اس کے پر اب ونڈ بریکر کا کام کر رہے تھے۔ لفٹ ختم ہو جانے کی وجہ سے اچانک اس نے آسمان سے نیچے گرنا شروع کر دیا۔
کاک پٹ میں الارم بجنے لگے۔ لمبی پرواز میں کیپٹن شیڈول کے حساب سے آرام کر رہے تھے، الارم کے ساتھ ہی وہ فوری طور پر چوکنا ہوئے تو اس وقت یہ جہاز دس ہزار فٹ فی منٹ کی رفتار سے سمندر کی طرف گر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت تک برف کے کرسٹل پگھل چکے تھے۔ کوئی مکینیکل خرابی نہیں تھی۔ سمندر ابھی دور تھا۔ اس سے ریکور کیا جا سکتا تھا۔ دس سے پندرہ سیکنڈ میں بونن اور ان کے کوپائلٹ صورتحال پر قابو پا سکتے تھے۔ صرف سٹک کو آگے کی طرف دھکیلنا تھا۔ اس سے جہاز کی ناک نیچے کو ہو جاتی اور اس کے پر واپس جہاز کو ہوابردوش کر دیتے۔
لیکن اس موقع کی گھبراہٹ کی وجہ سے بونن سٹک کو مضبوطی سے پکڑے رہے۔ کسی کو یہ احساس نہ ہوا کہ اصل مسئلہ یہ ہے۔ قیمتی سیکنڈ گزرتے گئے۔ کیپٹن نے تجویز کیا کہ پروں کو لیول کیا جائے۔ انہوں نے اس پر بات کی کہ وہ اوپر کی طرف جا رہے ہیں یا نیچے کو۔
سمندر سے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر کوپائلٹ نے کنٹرول سنبھال لیا۔
کوپائلٹ چیخے، “اوپر کرو، اوپر کرو، اوپر کرو”۔
بونن نے جواب دیا، “میں نے تو سٹک پہلے ہی پیچھے کی طرف کی ہوئی ہے”۔
اور اب کیپٹن کو سمجھ آئی۔ وہ تین منٹ سے ائیروڈائنامک stall میں تھے اور فری فال کر رہے تھے۔ انہوں نے آرڈر کیا کہ جہاز کی ناک نیچے کو گرائی جائے۔
 دیر ہو چکی تھی۔
بونن چیخے، “ہم کریش ہونے لگے ہیں۔ یہ کیا ہو گیا؟”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس جہاز میں 228 لوگ سوار تھے۔ ان میں سے کوئی بھی نہ بچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کریش سے 26 سال پہلے ماہرِنفسیات لزان برین برج نے ایک اہم مضمون لکھا تھا جس میں آٹومیٹک سسٹم پر حد سے زیادہ بھروسہ کرنے کے خطرات کے بارے میں لکھا تھا۔ ان کا مقدمہ یہ تھا کہ اگر مشین کو انسانی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے ڈیزائن کیا جائے تو ستم ظریفی یہ ہو گی کہ یہ مشین انسان کی صلاحیت کو کند کر دے گی۔
یہ خدشہ کس حد تک درست ہے؟ اس کے مضمرات کیا ہو سکتے ہیں؟ اور خودکار مشینوں کے ڈیزائن پر اس کا کیا اثر ہو سکتا ہے؟ یہ سوالات غیراہم نہیں ہیں۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں