باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 12 اگست، 2023

ذہانت (38) ۔ نیم خودمختاری کے جھنجھٹ


ٹیکنالوجی کی آمد کئی صلاحیتوں کو کند کر دیتی ہے آپ نے خود بھی مشاہدہ کیا ہو گا۔ لوگ فون نمبر یاد نہیں رکھ پاتے۔ لکھائی خراب ہوئی ہے۔ اور جی پی ایس استعمال کرنے والے راستے نہیں یاد رکھ پاتے۔ جب ٹیکنالوجی دستیاب ہو تو ہم اپنی مہارت کی مشق نہیں کر سکتے۔
یہ خودکار گاڑیوں کے ساتھ مسئلہ ہے۔ اگر خودکار گاڑی کے پاس سو فیصد کنٹرول ہو تو ٹھیک۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو اور کبھی کسی غیرمتوقع صورتحال میں یہ اپنا کنٹرول ڈرائیور کے حوالے کر دے؟ کیا ڈرائیور اس قابل ہو گا کہ درست فیصلہ لے سکے۔اور کیا نئے ٹین ایجر اس قابل ہوں گے گہ ان کے پاس اس کی اچھی مہارت کی مشق کا موقع ہو؟
اور بالفرض کسی طرح تمام ڈرائیور اپنی مہارت برقرار رکھ سکیں تو ایک اور مسئلہ ہے۔ اگر گاڑی مدد کے لئے پکارے تو ڈرائیور تیار بھی ہو گا کہ اس نے کرنا کیا ہے؟ توجہ کا بھٹک جانا آسان ہے اور عام گاڑی چلاتے وقت توجہ سڑک پر مرکوز رکھنا ایک چیلنج رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیسلا کا آٹو پائلٹ گاڑی کی رفتار اور سمت کنٹرول رکھتا ہے لیکن اس کی توقع یہ ہے کہ ڈرائیور ہوشیار اور باخبر رہے گا۔ اور اگر سٹیرنگ پر کچھ دیر کے لئے ہاتھ اٹھا لئے جائیں تو یہ الارم بجا دیتا ہے۔
برین برج اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ یہ طریقہ اچھے نتائج نہیں دے گا۔ یہ توقع غیرحقیقی ہے کہ انسان طویل وقت تک چوکس رہیں گے۔
کم فہم لوگ یوٹیوب پر فخریہ طور پر ویڈیو لگاتے ہیں کہ وہ اپنی گاڑی کو کیسے چکمہ دے رہے ہیں کہ اسے پتا نہ لگے کہ آپ توجہ نہیں دے رہے لیکن یہ بغیر ارادے کے بھی ہو سکتا ہے۔
اور بغیر ڈرائیور کے گاڑی کا فائدہ ہی کیا ہے کہ اگر میں اپنی توجہ بھٹکنے نہ دوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی کمپنیاں اس کے متبادل طریقے سے استعمال کر رہی ہیں۔ آڈی کی گاڑی میں ٹریفک جام پائلٹ ہے۔ یہ مکمل طور پر اس وقت کنٹرول سنبھالتا ہے اگر ہائی وے پر ٹریفک سست چل رہا ہو۔ اور آپ اس جھنجھلا دینے والے وقت میں آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔
اور آڈی کی طرف سے پائلٹ کو سست رفتار ہائی وے تک محدود کر دینے کی اچھی وجہ ہے۔ اس میں بڑے حادثے کا امکان بہت کم ہے اور یہ اہم ہے۔
ایسا ڈرائیور جو مسلسل توجہ نہیں دے رہا، اس کے لئے خودکار گاڑی میں ایمرجنسی کی صورت میں فیصلہ لینے کے لئے وقت نہیں۔ اگر آپ ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھ کر کتاب کی ورق گردانی کر رہے ہیں اور الارم بج اٹھتا ہے۔ سامنے دیکھتے ہیں تو راستے میں ایک ٹرک سے کوئی شے گر رہی ہے۔ گاڑی نے آپ کو فیصلہ پکڑا دیا کہ کیا کریں۔ آپ کو فوری طور پر پراسس کرنا ہے کہ بائیں طرف موٹرسائیکل ہے۔ دائیں طرف دیوار کتنی دور ہے۔ اور پیچھے کی طرف کیا صورتحال ہے۔ اور جس وقت آپ کو سڑک کے بارے میں سب سے زیادہ خبردار ہونے کی ضرورت ہے، اسی وقت آپ اس کی اچھی انفارمیشن نہیں رکھتے۔ اور اس کے علاوہ، آپ کی پریکٹس بھی نہیں ہے جبکہ جس صورتحال کا سامنا ہے، یہیں تو مہارت کا امتحان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمولیشن کے تجربات بھی ایسی مشکلات کو نمایاں کرتے ہیں۔ اس پر سٹڈی یہ بتاتی ہے کہ اگر توجہ بٹ چکی ہو تو مکمل طور پر واپس آنے کر کنٹرول سنبھالنے میں چالیس سیکنڈ لگ سکتے ہیں۔ اور یہی تھا جو ائیرفرانس کی پرواز کے ساتھ ہوا تھا۔ کیپٹن جو کہ جہاز کو آسانی سے بچا سکتے تھے، ان کا ایک منٹ صورتحال کو سمجھنے میں صرف ہو گیا تھا۔ (پھر وہ اس سادہ حل تک پہنچ گئے تھے جو جہاز کو بچا سکتا تھا)۔  
ستم ظریفی یہ ہے کہ سیلف ڈرائیونگ ٹیکنالوجی جتنی بہتر ہوتی جائے گی، یہ مسئلہ اتنا سنجیدہ ہوتا جائے گا۔ ایسا آٹوپائلٹ جو بہت اچھا نہ ہو اور ایک گھنٹے کے سفر میں چار الارم بجا دے، وہ ڈرائیور کو چوکس رکھے گا۔ لیکن ایسا آٹوپائلٹ جو ماہر اور قابلِ اعتبار ہو، وہ خطرناک ہے۔
ٹویوٹا ریسرچ کے سربراہ گل پریٹ کہتے ہیں۔
“سب سے بدترین ایسا کیس ہو گا جہاں پر ڈرائیور کی توجہ دو لاکھ میل میں ایک مرتبہ درکار ہو۔ ایک عام شخص کو ایسے فیصلے لینے کا کوئی بھی تجربہ نہیں ہو گا۔ کئی سالوں سے ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ہو گا۔ اور پھر اچانک الارم بج اٹھا۔ اب اس کی باری ہے۔ اور ایسا الارم بالکل ہی بے کار ہو گا”۔
(جاری ہے)





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں