باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 12 اگست، 2023

ذہانت (39) ۔ بڑی توقعات


خودکار گاڑیوں کے ساتھ وابستہ مسائل اپنی جگہ لیکن ایسے مستقبل کی کوشش کرنے کی بہت اچھی وجوہات ہیں۔ اس کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔ ٹریفک حادثات قابلِ انسداد اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ اگر ٹیکنالوجی کی مدد سے ان میں کمی لائی جا سکتی ہے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ خودکار گاڑیوں کی طرف نہ جانا غیراخلاقی ہو گا۔
اس کے علاوہ دیگر فوائد بھی ہیں۔ ایندھن کی بچت کی جا سکتی ہے۔ ٹریفک جام بہتر کئے جا سکتے ہیں۔ (اور آپس کی بات ہے کہ 120 کلومیٹر فی گھنٹہ سے سفر کرتے ہوئے سٹیرنگ پر سے ہاتھ اٹھا دینا بہت بھلا لگتا ہے)۔
لیکن اس بارے میں برین برج کا انتباہ ہمیں خبردار کرتا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو جس طرح سے پیش کیا جا رہا ہے، اس فریمنگ کے ساتھ مسئلہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیسلا کی خودکار گاڑیاں مارکیٹ میں ہیں۔ (یہ سیلف ڈرائیونگ کا لیول 2 ہے)۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے نتائج مثبت ہیں۔ آپ آن لائن ویڈیو سرچ کر کے دیکھ سکتے ہیں جو Forward Collision Warning کے فیچر پر ہیں۔ حادثے کے خطرے سے قبل گاڑی ڈرائیور کو خبردار کر کے حادثات بچا چکی ہے۔
ٹیسلا کے پراڈکٹ آرکیٹکٹ ایلون مسک ہیں۔ اور ان کی سٹیٹمنٹ ہے کہ ان کی گاڑیاں مکمل autonomy کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ جبکہ ساتھ ہی ساتھ ایک متضاد وارننگ بھی ہے کہ آپ کو کنٹرول برقرار رکھنا ہے اور گاڑی کی ذمہ داری آپ کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم جانتے ہیں کہ انسان باریکیاں سمجھنے میں بہت اچھے ہیں۔ تناظر کا تجزیہ کر کے اپنے تجربے کو استعمال کرنے میں اور پیٹرنز میں تفریق کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ہماری کمزوری توجہ برقرار رکھنے میں ناکامی ہے۔ ہر وقت چوکس رہنے میں ناکام رہتے ہیں۔ طیش میں آ کر یا پھر thrill کی خاطر غلط فیصلے لیتے ہیں۔ الگورتھم اور ہم اس بارے میں متضاد ہیں۔
تو جب تک مکمل خودمختاری تک نہیں پہنچا جا سکتا، اس وقت تک ڈرائیور کی مدد کے سسٹم بہتر کرنے پر توجہ کیوں نہ دی جائے؟ شوفر کے بجائے محافظ کا کردار کیوں نہ ادا کیا جائے؟
ٹویوٹا ریسرچ انسٹیوٹ کی توجہ اس طرف ہے۔ رش کے وقت میں “شوفر” والا موڈ جو خود گاڑی چلا سکے اور نارمل حالت میں “محافظ” والا موڈ جو کہ حفاظتی جال کا کام کرے۔ ڈرائیور کی کوتاہی کی صورت میں حادثے کے خطرے کو کم کر سکے۔
والجو نے بھی ایسا ہی راستہ چنا ہے۔ اگر گاڑی اگلی گاڑی سے زیادہ قریب آ جائے تو رفتار کم ہو جائے۔ اور اس وجہ سے اس کا سیفٹی ریکارڈ قابلِ رشک ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے کیا ہوتا ہے؟ ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔ لیکن ٹیکنالوجی اپنا دائرہ بڑھاتی جائے گی۔ الگورتھم سے وابستہ توقعات کے بارے میں شاید ہمیں زیادہ حقیقت پسند ہونا پڑے۔
اور اس کے ساتھ سوچ کا طریقہ بھی کچھ ایڈجسٹ کرنا پڑے۔ پرفیکشن کی امید چھوڑنی پڑے اور الگورتھم کی غلطی قبول کرنی پڑے کیونکہ غیریقنیت ہمار یدنیا کا حصہ ہے۔ سوال یہ ہو گا کہ قابلِ قبول کیا ہے۔ اور یہ بہت اہم سوال ہے۔
ہر سال ٹریفک حادثات میں ہونے والی اموات تیرہ لاکھ ہیں۔ کیا ہمیں ایسا الگورتھم قابلِ قبول ہو گا جس کی غلطی سے ہونے والی اموات اس کے مقابلے میں بہت کم ہوں؟
فرض کیجے کہ ہم ایک الگورتھم بنا لیتے ہیں جو ہم سے بہت بہتر اور محفوظ ہے لیکن بے عیب نہیں۔ کیا ہم ایسے ناقص الگورتھم کے ہاتھ میں کنٹرول سپرد کرنے کو تیار ہوں گے؟
(جاری ہے)




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں