باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 12 اگست، 2023

ذہانت (41) ۔ Operaitnon Lynx


آندرے مشل گوئیری وکیل تھے جو شماریات کی طرف چلے گئے تھے۔ وہ فرانس کے محکمہ انصاف وابستہ تھے۔ انہوں نے 1820 میں فرانس میں ہونے والے قتل، ریپ اور ڈکیتیوں کا ریکارڈ اکٹھا کرنا شروع کیا تھا۔
اس وقت میں ریاضی اور شماریات کا تعلق صرف سائنس کے ساتھ سمجھا جاتا تھا۔ مساوات کی مدد سے قوانینِ فطرت سمجھے جا سکتے ہیں۔ کسی سیارے کا آسمان پر راستہ کیا ہے؟ سٹیم انجن کتنی فورس لگائے گا؟ وغیرہ۔ ان کا جرم و سزا کی دنیا سے تعلق ایک نیا خیال تھا۔
کیا گننا ہے؟ کیسے گننا ہے؟ کب گننا ہے؟ اس کا فائدہ کیا ہے؟ انسان خودمختار ہے تو شماریات میں اس کا رویہ کہاں سے آئے گا؟
گوئیری اس سے متفق نہیں تھے۔ جرائم پر کئے جانے والا ان کے تجزیہ انہیں کچھ بتا رہا تھا۔ انہوں نے تلاش کیا تھا کہ اعداد و شمار پیٹرن رکھتے ہیں۔ نوجوان بوڑھوں کی نسبت زیادہ جرائم کرتے ہیں۔ مرد عورتوں کی نسبت زیادہ۔ غریب امیروں سے زیادہ۔ اور یہ بھی واضح تھا کہ یہ وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتا۔ ہر علاقے میں جرائم کی اپنی شرح تھی جو سال بہ سال ویسے ہی رہتی تھی۔ ایک سال میں ہونے والے قتل، ریپ اور ڈکیتیاں اگلے سال پھر دہرائے جاتے تھے۔ اور قاتل جو طریقہ کار استعمال کرتے تھے، وہ بھی predictable تھا۔
جرم رینڈم نہیں تھا۔ اس کی ٹھیک ٹھیک پیشگوئی کی جا سکتی تھی۔ یہ گوئیری کی انوکھی دریافت تھی۔ اور اس سے دو صدیوں بعد کِم روسمو اسی کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوئیری کے کام پر فوکس ملک، علاقے اور فرد کی سطح کے پیٹرن پر تھا۔ اور جرائم اپنا جغرافیائی پیٹرن بناتے ہیں۔ مجرم ان علاقوں میں جرم کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے واقف ہوں۔ اور مقامی طور پر آپریٹ کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ سنجیدہ جرم کی جگہ مجرم کی رہائش کے قریب ہونے کا امکان ہے۔ اور جس طرح اس سے دور ہوتے جائیں گے، یہ امکان گرتا جائے گا۔ ماہرین اس کو distance decay کہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ دوسری طرف، ایسے لوگ جو سیریل مجرم ہوں، وہ اپنے گھر کے بہت قریب جرم نہیں کرتے تاکہ پولیس کی توجہ سے دور رہیں یا ہمسائے انہیں پہچان نہ لیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ buffer zone بن جاتا ہے جو مجرم کے گھر کے اطراف میں ہوتا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ یہاں واردات کرے گا۔
اگر ایک ہی جرم کو تو پھر اس تصویر سے زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔ لیکن اگر انفارمیشن کافی ہو تو geoprofiling algorithm کی مدد سے تصویر واضح ہونے لگتی ہے۔ یہ شہر کے ان علاقوں کو سامنے لے آتا ہے جہاں مجرم پایا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طالبہ کے اس کیس میں روسمو کا الگورتھم استعمال ہوا۔ اس مجرم کے شکار کو آپریشن لنکس (Lynx) کا نام دیا گیا۔ ٹیم کے پاس پانچ جرائم تھے۔ اور اس کے علاوہ کچھ ایسی جگہیں تھیں جہاں سے حملہ آوار نے نشانہ بنانے والے کے چوری کئے گئے کریڈٹ کارڈ سے سگریٹ، شراب اور ویڈیو گیم خریدی تھی۔ الگورتھم نے دو اہم علاقے نمایاں کر دئے۔ یہ ملگراتھ اور کلنگبک تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
پولیس کے پاس حملہ آور کی انگلیوں کا جزوی نشان موجود تھا۔ یہ اتنا نہیں تھا کہ فنگرپرنٹ کا سسٹم اس کو میچ کر دے لیکن ایک ماہر محدب عدسے کی مدد سے اس میں مدد کر سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تک تین سال گزر چکے تھے۔ 180 پولیس افسر اس میں شریک رہے تھے۔ پیشرفت نہیں ہو سکی تھی۔
افسروں نے فیصلہ کیا کہ الگورتھم نے جن علاقوں کو نمایاں کیا ہے، وہاں کے تمام فنگرپرنٹ چیک کئے جائیں۔ پہلے ملگارتھ کی باری آئی۔ مقامی ریکارڈ چھان مارے گئے۔ کچھ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔
پھر کلنگبیک کا ریکارڈ کنگھالنا شروع کیا گیا۔ 940 گھنٹے کی چھان پھٹک کے بعد ایک نام سامنے آ گیا۔ کلائیو بارویل۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارویل کی عمر 42 سال تھی۔ شادی شدہ اور چار بچوں کا باپ۔ اس سے پہلے ڈکیتی کے جرم میں جیل کاٹ چکا تھا۔ لاری ڈرائیور کا کام کرتا تھا جس میں ملک بھر کا سفر ہوتا تھا۔ رہائش کلنگبیک میں تھی۔ والدین کا گھر ملگراتھ میں تھا۔ یہی دو علاقے تھے جو الگورتھم سامنے لے کر آیا تھا۔
فنگرپرنٹ میچ تو ہوا تھا لیکن مکمل نہ ہونے کی وجہ سے نتیجہ خیز نہیں تھا۔ ڈی این اے کے ٹیسٹ نے بتا دیا کہ یہی وہ شخص تھا جس نے یہ ہولناک جرائم کئے تھے۔
پولیس نے مجرم دھر لیا تھا۔ اکتوبر 1999 کو بارویل نے عدالت میں اپنے قصوروار ہونے کا اعتراف کیا۔ جج نے اسے آٹھ بار عمرقید کی سزا سنائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الگورتھم کارآمد رہا تھا۔ پولیس اپنی ترجیح چھوٹے حصے تک لے گئی تھی جہاں سے مجرم کو پکڑ لیا گیا تھا۔ یہ پولیس کے کام میں بہت مددگار رہا ہے۔ آپریشن لنکس کے بعد اس کو دنیا میں 350 ایجنسیاں استعمال کرنے لگی ہیں۔ اور صرف جرائم میں نہیں۔
مصر میں اس کو ملیریا پھیلانے والے مچھروں کے پنپنے کی جگہوں کی تلاش کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ بم بنانے والی فیکٹریوں سے نامعلوم آرٹسٹ بینکسی کی تلاش تک اس کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن اقسام کے جرائم میں جیوپروفائلنگ کام کرتی ہے۔سیریل قتل، ریپ وغیرہ۔۔۔ خوش قسمتی سے یہ کم ہوتے ہیں۔ حقیقت میں زیادہ تر معاملات میں اتنی چھان بین نہیں کی جاتی۔ ان کے لئے ایک مختلف قسم کا جغرافیائی پیٹرن کا الگورتھم درکار ہے۔ وہ جو کہ کسی سڑک اور گلی کے پیٹرن کے ردھم پہچان سکے۔
(جاری ہے)





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں