باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 15 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (48) ۔ ترکیہ ۔ کرد

 اناطولیہ میں رہنے والے کردوں کی ترکوں سے جنگ کی تاریخ دو سو سال پرانی ہے۔ پہلے یہ عثمانیوں کے ساتھ تھی اور اب جدید ترک ریاست کے ساتھ۔
کرد زبان فارسی کے قریب تر ہے لیکن ترکی، عراق، ایران اور سیریا میں بولی جانے والی زبانوں میں خاصا فرق ہے۔ اتنا کہ ایک علاقے کی زبان سمجھنے میں دوسرے کو دشواری ہوتی ہے۔ یہ ان عوامل میں سے ایک ہے کہ یہ آپس میں تقسیم رہے ہیں۔ لیکن ان چاروں ملکوں میں کرد علیحدگی پسند موجود ہیں۔ اور چاروں ممالک کو یہ خوف بھی ہے کہ اگر کسی پڑوسی ملک کے کرد علیحدگی میں کامیاب ہو جائیں تو اس کا اثر ان کے اپنے ملک پر پڑے گا۔
جب ترکی قائم ہوا تو کردوں کے ساتھ مسائل ساتھ ہی آئے۔ دہائیوں تک کھٹ پٹ رہی اور پھر 1980 میں باقاعدہ بڑی خانہ جنگی پھوٹ پڑی۔ اس میں کردستان مزدور پارٹی (PKK) پیش پیش تھی۔ ابتدا میں یہ مقبول رہی لیکن پھر کردوں میں ہی اپنے مخالفین کو ہی تشدد کا نشانہ بنانے اور قتل و غارت کے طریقوں کی وجہ سے مقبولیت کمزور پڑ گئی۔
ترکی نے کرد قومیت سے انکار کیا تھا۔ زبان پر پابندی لگائی گئی تھی اور انہیں “پہاڑی ترک” کہا جاتا تھا۔ اردگان نے اپنے ابتدائی سالوں میں اس پالیسی کو بدل دیا۔ اس مسئلے کے حل کی کوششیں کیں۔ قومیت کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ اصلاحات لائی گئیں۔ کرد علاقوں میں سرمایہ کاری کی گئی۔ پی کے کے سے جنگ بندی ہوئی۔ اور یہ وجہ ہے کہ کردوں میں اردگان مقبول رہے ہیں۔ لیکن پھر جنگ بندی ختم ہو گئی۔ سیریا کی خانہ جنگی کے وقت روجاوا کی ریاست قائم ہو گئی جو سیریا کے کردوں کی تھی اور اس سے ترکی میں علیحدگی پسندوں کی تحریک میں جان پڑ گئی۔
ترک فوج واپس آ گئی۔ کرفیو، عسکری کارروائیاں، گوریلا جنگ۔ ٹینک، توپیں، ڈرون سے حملے لوٹ آئے۔ اور ساتھ ہی سپیشل فورس کے آپریشن جو گھر گھر جا کر آپریٹ کرتے تھے۔ ترک فوج میں ایک ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔
اس تشدد نے ترک حکومت کی پالیسی بھی تبدیل کر دی۔ عراقی کردستان میں قندیل پہاڑیوں کے علاقے میں PKK کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ عراقی کردوں نے اس میں ترک حکومت کا ساتھ دیا۔ (عراقی کرد علاقائی حکومت کے ترکی سے توانائی کے معاہدے ہیں)۔
سیریا کے کردوں نے سیریا کے خانہ جنگی میں امریکی فوج کا ساتھ دیا تھا۔ اور اس وجہ سے انہیں اپنی آزادی ریاست روجاوا قائم کرنے کا موقع ملا تھا۔ امریکی صدر ٹرمپ سیریا دنیا میں مداخلت کے زیادہ شوقین نہیں تھے۔ انہوں نے سیریا سے فوجوں کو واپس بلا لیا۔ اب ترکی کے پاس موقع تھا۔ اس نے سیریا پر حملہ کر دیا۔ اس میں دولت اسلامیہ کو نشانہ بنانے کے علاوہ اس بات کو یقنی بنانا تھا کہ سیریا کے کردوں کی طرف سے نئی قائم کردہ ریاست ختم ہو جائے۔ اس میں روجاوا کی بحیرہ روم تک رسائی ختم کی گئی۔ اس کے ترک گروہوں سے رابطے کو کاٹا گیا جو نور کے پہاڑوں تک آنے کا تھا۔ ترکوں نے تین سو دیہاتوں، چھ شہروں اور کئی اہم مقامات پر قبضہ کر لیا۔ یہ تمام علاقے اب عملا ترکی کا حصہ ہیں۔ یہاں ترکی لیرا کی کرنسی استعمال ہوتی ہے۔ بجلی ترک گرڈ سے آتی ہے۔ منتظم انقرہ تعینات کرتا ہے۔ سکولوں میں عربی کے ساتھ اب ترک زبان پڑھائی جاتی ہے۔ قانونی طور پر یہ سیریا کا حصہ ہے۔ لیکن اگر بشارالاسد یہاں کچھ کرنا چاہیں تو انہیں پہلے اس علاقے کو ترک کنٹرول سے واپس لینا ہو گا۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں