باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 15 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (47) ۔ ترکیہ ۔ پانی

 

ترکیہ کی آبادی ساڑھے آٹھ کروڑ ہے۔ اس کا نصفر گریٹر استنبول کے علاقے میں یا تنگ ساحلی میدان میں رہتا ہے۔ اس کے اندرونی علاقے میں سنگلاخ پہاڑ ہیں جن میں سے کئی تین ہزار میٹر سے بلند ہیں جن میں سب سے اونچی چوٹی ارارات کی ہے۔ اس میں بکھری آبادی دیہی ہے اور یہ غریب علاقے ہیں۔ یہاں ترقیاتی کام دشوار ہیں اور اس آبادی کو باقی ملک میں integrate کرنا ایک چیلنج رہا ہے۔ لیکن اس کے مشرق میں پانی ہے اور بہت سا پانی ہے۔
دریائے فرات کا 90 فیصد اور دجلہ کا 45 فیصد اناطولیہ کی پہاڑیوں سے شروع ہوتا ہے۔ فرات بہتا ہوا سیریا اور عراق پہنچتا ہے۔ دجلہ کے ساتھ ساتھ بہتا ہے ارو یہ دونوں جنوبی عراق میں جا کر مل جاتے ہیں۔ اور اس علاقے کی زرخیز زمین دنیا کی قدیم ترین تہذیب کا گہوارہ تھی۔ دونوں دریا، اور خاص طور پر فرات، چھ کروڑ لوگوں کے لئے پانی، خوراک اور توانائی کے لئے اہمیت رکھتے ہیں اور اس نلکے پر ترکی کا ہاتھ ہے۔
ترکی نے دونوں دریاؤں پر 1960 کی دہائی میں ڈیم بنانے شروع کئے تھے۔ اس سے نیچے کے ممالک کو مسئلہ ہوا اور تعلقات خراب ہوئے اور یہ مسائل ابھی تک برقرار ہیں۔ سینکڑوں ڈیم بنائے جا چکے ہیں۔ ان میں اتاترک ڈیم دنیا کے بڑے ڈیموں میں سے ہے۔ 1975 میں عراق، سیریا اور ترکی جنگ کے دہانے پر تھے۔ 1989 میں سیریا کے جنگی طیاروں نے ترک طیارے کو مار گرایا جو علاقے کی نگرانی کر رہا تھا۔ اس سے اگلے سال عراق نے ترکی پر بمباری کی دھمکی دی جب اس نے تعمیر کے دوران کچھ دیر کے لئے پانی روکنا تھا۔ اس وقت کے ترک صدر ترگت اوزال کا کہنا تھا۔ “ہم ان عربوں کو نہیں بتاتے کہ یہ اپنے تیل کے ساتھ کیا کریں۔ اسی طرح یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنے پانی کے ساتھ کیا کریں۔ انہیں چاہیے کہ منہ بند رکھیں”۔
ان ممالک نے آپس میں معاہدوں کو تسلیم کر لیا ہے جن میں ترکیہ دریاؤں سے بجلی بنا سکتا ہے جبکہ پانی کا بہاؤ عراق اور سیرا کے لئے ہے لیکن پانی پر جنگ کا خطرہ موجود رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پانی کے معاہدے وہ جگہ ہیں جہاں پر ترکیہ کے دو داخلی چیلنج آتے ہیں۔
ترکیہ کے “جنوب مشرقی اناطولیہ پراجیکٹ” کا ایک حصہ نئے ڈیموں کی تعمیر ہے۔ اس سے روزگار ملنا، توانائی کی ضروریات کا پورا ہونا اور آبپاشی کے نظام کی بہتری علاقے کی معیشت بہتر کرے گی۔ لیکن ان کے ہیڈواٹر جہاں پر ہیں، یہ کرد اکثریتی علاقے ہیں اور وقتا فوقتا بغاوتیں اٹھتی رہتی ہیں۔
ترک جب سیریا کے ساتھ بات کرتے ہیں تو پانی کا بہاؤ جاری رکھنے کی ایک شرط سیریا کی طرف کے کرد علیحدگی پسندوں کو دبانا بھی شامل ہوتا ہے۔
کچھ ڈیم ایسے ہیں جو کہ مسلح کرد گروپوں کی صلاحیت کند کرنے کے کام بھی آتے ہیں۔ یہ گروپ جن وادیوں کو راستے کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں انہیں زیرِآب کر دیا گیا ہے۔ اور علاقے کو شمالا جنوبا کاٹ کر گوریلا گروپس کی نقل و حرکت کو اس طریقے سے توڑا گیا ہے۔ جبکہ اس کے جواب میں کرد گوریلا گروپ PKK ڈیموں پر حملہ کرتا ہے۔ گاڑیوں کو آگ لگائی جاتی ہے اور دھماکے کئے جاتے ہیں اور مزدوروں کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ کئی پراجیکٹ ایسے ہیں جہاں پر مزدوروں کی چوکیداری ترک فوج کرتی ہے۔
کرد آبادی ڈیڑھ کروڑ ہے۔ زیادہ تر ملک کے مشرقی حصہ میں رہتے ہیں جو ایران، عراق اور سیریا کی سرحد پر ہے۔ لیکن ترک کرد 1960 کی دہائی میں شہری علاقوں میں آنے لگے تھے۔ استنبول میں بیس لاکھ کرد رہائش پذیر ہیں۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں