باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 16 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (50) ۔ ساحل ۔ خطہ


افریقہ میں بحیرہ احمر سے بحیرہ اوقیانوس تک پھیلا یہ علاقہ شمال کے خشک صحرا سے جنوب کے جنگلوں کی درمیانی زون ہے۔ اور یہاں پر مسائل بڑے ہیں۔ جنگ و جدل، قتل و غارت، شدید غربت اور بھوک، موسمیاتی چیلنج ۔۔۔ اس میں تعجب کی بات نہیں کہ یہاں پر رہنے والے ریت کا سمندر پار کر کے بحیرہ روم کے کنارے تک پہنچتے ہیں اور پھر اسے پار کر کے دنیا کے امیر ترین علاقے کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ یورپ ہے۔
زیادہ تر یورپی اس علاقے اور اس کی مشکلات سے آگاہ نہیں ہیں۔ اور یہ ان کے اپنے ممالک کو متاثر کر رہا ہے۔ یورپ کے عوام باہر سے آنے والے تارکین وطن اور پناہ گزینوں سے بے زار ہو رہے ہیں اور آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ اس کا سد باب کیا جائے۔ لیکن اس کے لئے جو کام کیا جانا ہے، وہ یورپ کے جنوب میں سمندر پار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرب اس علاقے کو ساحل کہتے تھے ۔ یہ مشکل زمین ہے۔ ریتلے میدانوں میں جھاڑیاں اور پستہ قد گھاس اور چھوٹے درخت۔ پتھریلے ساحلی علاقے۔ گرم ہوائیں۔ یہاں زندگی آرام دہ نہیں رہی،
اس علاقے کے پاس اپنے فوائد ہیں۔ صحارا کی وسیع ریت اور بنجر زمین کے بعد یہاں پر دریا، سیلاب اور کنویں ہیں۔ بارشوں کے موسم میں زرد، سفید اور سبز ببول کے درخت اگتے ہیں۔ گلابی، جامنی اور قرمزی بوگن ویلیا بھی۔ کئی قومیتوں کے لوگ آباد ہیں۔ یہ چھ ہزار کلومیٹر لمبی راہداری ہے۔ یہاں پر ٹمبکٹو جیسی رومانوی تصورات والی جگہیں ہیں اور خرطوم جیسے بڑے شہر آباد ہیں۔ دھول اڑتے علاقوں میں چھوٹی بستیاں ہیں جہاں پر معدنیات نکال کر عالمی منڈیوں میں فروخت کر کے زندگی گزاری جاتی ہے۔ خانہ بدوش گدڑیے ہیں جیسا کہ فلانی اور تواریگ قبائل۔ قومی ریاستوں کے تصور سے قبل یہ پرانے بنائے گئے راستوں پر سفر کرتے تھے۔ اور پھر بہت سے جنگجو گروپ ہیں جو نظریات اور تشدد سے مسلح ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ راہداری شمال کے ریتلے علاقے اور جنوب کے جنگلوں کے درمیان ہے۔ شمال کے صحرا میں اگر زیادہ دیر ایک مقام پر ٹھہر جائیں تو پیاس اور گرمی سے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہے جبکہ جنوب میں زی زی مکھی کی بادشاہت ہے۔ اور اس وجہ سے یہاں پر گھوڑے، اونٹ اور گدھے نہیں رہ پاتے۔ اور آج بھی دسیوں ہزار لوگ اس مکھی کے ہاتھوں جانیں گنوا دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساحل کے اس علاقے میں تاریخی اور جدید آثار ہیں جو کہ اسلامی، عربی، کرسچن، خانہ بدوش اور مقیم کلچرز کا امتزاج ہیں۔ اور یہ باعث تعجب نہیں کہ کئی علاقے حکومتوں کی پہنچ اور رِٹ سے دور ہیں۔ اور ان حکومتوں کو بھی یہاں پر سرکاری خدمات پہنچنے میں زیادہ دلچسپی نہیں۔
نسلی بنیادوں پر تنازعات، غربت، کمزور سرحدیں اور اب پرتشدد سیاسی اور مذہبی نظریات کی آمد نے اس مشکل زمین کو مشکل تر بنا دیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی ان مسائل کو دوچند کرتی ہے۔ جب بارش کم ہوتی ہے تو فصلیں بھی۔ جب جھیلیں سکڑتی ہیں تو خوراک کی فراہمی بھی۔ اور جب یہ ہوتا ہے تو پھر لوگ نقل مکانی کرتے ہیں۔ اور جب یہ نقل مکانی کرتے ہیں تو جس جگہ پر پہنچتے ہیں، وہ لوگ نئے لوگوں کی آمد کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ساحل میں موجودہ حالات اور تنازعات کے پیچھے ایک اہم وجہ جغرافیہ، تاریخ اور قومی ریاستوں کا تصادم ہے۔ اور اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں کچھ پیچھے جانا پڑے گا۔
(جاری ہے)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں