باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 16 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (51) ۔ ساحل ۔ صحرا کا جہاز


ہزاروں سال سے کبھی انتہا کے خشک اور کبھی بارشوں والے دور گزرے جن کی وجہ سے صحارا کے علاقے پھیلتے اور سکڑتے رہے ہیں۔ اور اس نے ساحل کے علاقے اور ان کے لوگوں کو شکل دی ہے۔ یہ کہاں رہتے ہیں، کیا کرتے ہیں اور کیا رویہ رکھتے ہیں۔
آج سے ساڑھے دس ہزار سال پہلے مون سون کے طویل سلسلے نے صحارا کو سرسبز کر دیا تھا۔ جب صحرا سکڑا تو ساتھ ہی وہ علاقے بھی پھیلے جہاں شکار کیا جا سکتا یا خوراک تلاش کی جا سکتی۔ یہ تقریبا بیس نسلوں تک جاری رہنے والی تبدیلی تھی جس میں علاقے کے شمال اور جنوب سے لوگ یہاں آباد ہوئے۔ گلہ بانی شروع ہوئی اور ابتدائی زراعت بھی۔
اور پھر اچانک تبدیلی آئی۔ پانچ ہزار سال پہلے بارشیں رک گئیں اور صحرا واپس آنے لگا۔ “سبز صحارا” سے لوگ شمال میں بحیرہ روم کے ساحل کی طرف نقل مکانی کر گئے یا جنوب میں ساحل کے علاقے کی طرف۔
اور جب صحرا واپس آیا تو اس دشوار زمین پر سفر مشکل ہو گیا۔ مختصر راستے بنا لئے گئے تھے جن کا انحصار درمیان میں آنے والے نخلستانوں پر تھا۔ اور پھر ایک اونٹ آ گئے۔ یہ ایک انقلابی تبدیلی تھی۔
دو ہزار سال پہلے، اونٹوں کے قافلے طویل تجارتی راستوں پر چلنے لگے۔ بڑے سفر ممکن ہو گئے۔ اور قافلے بڑے ہو گئے۔ یہ بارہ ہزار اونٹوں تک کے ہو سکتے تھے۔ یہ اتنا بڑا انقلاب تھا جو آج سمندروں میں سپرٹینکروں کی آمد سے آٰیا ہے۔
اونٹ تجارت کے لئے زبردست جانور تھا۔ جو کام یہ کر سکتا تھا، وہ باربرداری کا کوئی اور جانور نہیں کر سکتا تھا۔ اور اس نے تاریخ بدل دی۔ صدیوں تک افریقہ اور یوریشیا کے درمیان سفر کرنے کا واحد طریقہ یہی “صحرا کا جہاز” تھا۔
ایک کوہان والا اونٹ گھوڑے سے چار گنا زیادہ سامان اٹھا سکتا ہے اور ایک دن میں پچاس کلومیٹر سفر کر سکتا ہے۔ اور یہ دو ہفتے تک پانی کی ایک بوند کے بغیر بھی گزارا کر لیتا ہے۔ ڈی ہائیڈریشن اس قدر برداشت کر سکتا ہے جو اس کے اپنے وزن کا ایک چوتھائی ہوتا ہے۔ اس کے کھروں کے درمیان کی سخت کھال اسے ریت کی سطح پر مضبوط پکڑ دیتی ہے۔ اور اگر ہوا کی وجہ سے اس کے منہ تک ریت آ رہی ہو تو یہ اپنے نتھنے بند کر سکتا ہے اور اپنی لمبی پلکوں کی مدد سے اندرونی پپوٹوں سے ذرات کو ایسے صاف کر سکتا ہے جیسے گاڑی سے وائپر پانی صاف کرتا ہے۔ اور خوراک؟ آپ کے پاس جو بھی ہے، چلے گا۔
اگر آپ اونٹ پر سوار ہوں تو شاید آپ خواہش کریں کہ ہچکولے کھاتی ہوئی اس سواری کے بجائے کسی 4x4 بڑی گاڑی پر ہوتے۔ لیکن اکیسویں صدی میں بھی اگر آپ صحارا میں 1600 کلومیٹر کا سفر کرنا چاہیں تو اس بات کا امکان اونٹ پر زیادہ ہے کہ آپ پلان کے مطابق منزل تک پہنچ جائیں گے۔ قدیم خانہ بدوشوں اور تاجروں کے لئے گھوڑے اور اونٹ کا آپس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحیرہ روم کے ساتھ کے تجارتی مراکز آپس میں منسلک ہو گئے۔ دریائے سینگال کے ساتھ ساتھ چاڈ کی جھیل کے علاقے سے نائجیر کے موڑ تک کے نئے راستے پھلنے پھولنے لگے۔ ان کے سیاسی نتائج بھی تھے جو آج تک ہیں جب بیسویں صدی میں ان راستوں کو ملکی سرحدوں نے کاٹ دیا۔
تجارت سے خوشحالی آئی۔ اور اس کے ساتھ آٹھویں صدی سے انیسویں صدی تک سلطنتیں اور بادشاہتیں قائم ہوئیں۔ ہاتھی دانت، سونا اور غلام تجارت کا سامان تھا جنہیں ٹمبکٹو جیسے تجارتی مراکز سے لے کر سمندر تک لے جایا جاتا تھا۔ دوسری طرف سے مراکش، تیونس اور قاہرہ سے ہر قسم کی اشیائے تعیش آتی تھیں۔ ان کی منزل جنوبی سلطنتوں کی اشرافیہ ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ نمک کی بڑی مقدار بھی ساحل کو جاتی تھی جہاں اس کی قلت تھی۔(آج بھی توارگ قبائلی اونٹوں پر نمک لے کر مالی کی طرف جاتے ہیں)۔ وقت کے ساتھ ساتھ  سلطنتوں کے عروج و زوال آئے۔ ریت جگہ بدلتی رہی۔ اور تجارتی راستوں کی شروعات اور منزلیں بدلتی رہیں۔   لیکن آج اس علاقے میں جو ہم دیکھتے ہیں، اس کی بنیادیں اسی وقت رکھی گئی تھیں۔
(جاری ہے)






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں