باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 17 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (52) ۔ ساحل ۔ بندر بانٹ

 

اس علاقے کو منظم کرنا چیلنج تھا۔ اور سلطنتوں کے سربراہان اپنے دارالحکومت سے دور علاقوں کو بڑی حد تک اپنی مرضی پر چلنے دیتے تھے۔ اس طرز کی خودمختاری آج بھی ہے کیونکہ جدید ریاستیں بڑی ہیں اور آبادی بکھری ہوئی ہے۔ مالی ایک مثال ہے۔ اس کا دارالحکومت بماکو جغرافیائی، موسمی اور ثقافتی اعتبار سے شمال کے شہروں اور دیہاتوں سے بہت مختلف ہے۔ اور شمال کے وہ علاقے ہیں جہاں ساحل کا ملاپ صحارا سے ہوتا ہے۔
تمام سلطنتوں کو جنوب کی طرف پھیلنے میں رکاوٹ رہی۔ یہ یروبا اور آشانتی قوموں کے علاقے تھے۔ یہاں جنگل شروع ہوتا ہے اور تاجر اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو اس علاقے میں لے جانے سے گھبراتے تھے جو کہ ان جانوروں کے لئے جان لیوا قاتل کا گھر تھا۔ یہ زی زی مکھی کا علاقہ تھا۔
اونٹوں کے قافلوں کے ساتھ صرف تجارت کا سامان ہی نہیں پہنچتا تھا۔ خیالات بھی آتے تھے۔ ان میں توحید اور رسالت کا پیغام بھی تھا۔ اسلام ساحل میں آٹھویں صدی میں پہنچا۔ اگلے صدیوں میں ان علاقوں میں پھیلنے لگا۔ اور رفتہ رفتہ افریقہ کے مقامی مزاج کے ساتھ ڈھلنے لگا۔
پندرہویں صدی میں یورپی تاجروں کے بحری جہاز بحر اوقیانوس سے آنے لگے۔ ان کی وجہ سے ہونے والی اپنی تبدیلیاں آئیں۔ غلاموں کی تجارت کی ایک نئی منڈی مل گئی۔ اور یہاں پر مردوں کی مانگ عورتوں سے زیادہ تھی۔ جو لوگ سونے کی صنعت سے وابستہ تھے، وہ اس کاروبار سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں تھے۔ یورپیوں نے اسے گولڈ کوسٹ (سونے کا ساحل) کہا۔ ساحلی علاقوں اور کچھ اندرونی حصے تک اب یورپی مصنوعات کی براہ راست رسائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برلن میں بدنام کانفرنس 1884 میں ہوئی جب یورپی طاقتوں نے افریقہ پر آڑی ترچھی لکیریں لگا کر اسے تقسیم کر دیا۔ اس وقت یہاں پر ایسے علاقے بھی تھے جہاں یورپی کبھی پہنچے بھی نہیں تھے۔ لیکن بڑی طاقتوں کو یہ علم تھا کہ انہیں چاہیے کیا تھا۔ زمین اور دولت۔ برطانیہ کے وزیراعظم لارڈ سالسبری نے کچھ سال بعد کہا تھا کہ “ہم پہاڑ اور دریا اور جھیلیں بانٹ رہے ہیں۔ چھوٹا سا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں صحیح طور پر یہ نہیں پتا کہ یہ پہاڑ اور دریا اور جھیلیں کہاں پر ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساحل کا زیادہ تر علاقہ فرانس کے پاس آیا۔ اس میں آج کے مالی، چاڈ، ماریطانیہ، سینیگال، گینیا، بینن اور آیئوری کوسٹ ہیں۔ اس وقت ان کے نام فرنچ سوڈان اور اپروولٹا رکھے گئے تھے۔ یہ خوشگوار اور خوبصورت نہیں تھا اور اس کا شاید سب سے شرمناک باب 1898 اور 1899 میں ہونے والی وولے اور شنون کی مہم تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پال وولے اور جولین شنون فوجی افسران تھے جو سینیگال سے چاڈ کی جھیل کی طرف نکلے تھے۔ ان کی مہم کا مقصد فرانس کے قبضے میں علاقوں کو اکٹھا کرنا تھا۔ ان کے ساتھ تین ہزار فوجی، قلی اور مشقتی تھے۔ اس فوج کے لئے اپنے سامان کا بندوبست مشکل ہوتا گیا۔ اور انہوں نے راستے کے دیہاتوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ اور اس لوٹ مار میں ریپ بھی ہوتے اور قتل بھی۔
اس کی بازگشت فرانس کی حکومت تک پہنچی۔ حکومت نے اس کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنانے سے انکار کر دیا اور معاملہ نوآبادیات کی وزات کے سپرد کر دیا گیا۔ چند ماہ کی تحقیقات کے بعد فیصلہ سنایا گیا کہ ان دونوں کو گرمی لگ گئی تھی۔ یعنی کہ یہ soudainte aigue کا شکار ہوئے تھے جس کا مطلب ہے کہ گرمی نے انہیں حواس باختہ کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ یہ معاملہ بند ہو گیا۔ وولے اور شنون کی مہم فرانس میں فراموش کر دی گئی۔ اور دنیا میں اسے کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ لیکن ساحل میں اس کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دوران میں برطانوی مصر، سوڈان اور برٹش صومالی لینڈ میں پھیل رہے تھے۔ اٹلی کے پاس لیبیا کا بڑا حصہ تھا۔ سپین کے پاس ہسپانوی صحارا تھا جسے اب مغربی صحارا کہا جاتا ہے۔ ان نئی تقسیموں نے تجارتی لکیروں کو کاٹ دیا تھا اور ان میں رخنہ ڈال دیا تھا۔ یورپی طاقتوں نے اندرونی منڈیاں قائم کرنے کی کوشش کی۔ ریلوے کی پٹڑیاں بچھیں اور پرانے راستوں کے سواروں کے لئے آمدنی مزید کم ہونے لگی۔
 (جاری ہے)




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں