باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 16 دسمبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (77) ۔ سپین ۔ جمہوریت کا سفر

 

فرانسکو فرانکو کی وفات 82 سال کی عمر میں نومبر 1975 میں ہوئی۔ ان کا آمرانہ اقتدار 36 سال رہا تھا۔ فوجی جنتا کا خیال تھا کہ پس پردہ اقتدار میں وہی رہیں گے لیکن انہوں نے اپنے نامزد کردہ ہوان کارلوس کے بارے میں غلط اندازہ لگایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فوجی جنتا کا خیال تھا کہ ان کا کردار رسمی اور نمائشی ہو گا لیکن بادشاہ بننے کے ساتھ ان کی پہلی تقریر ایسی توقعات کے لئے دھچکا تھیں۔ “سپین کو یورپ کا اہم حصہ بننا ہے۔ ہم یورپیوں سے الگ نہیں”۔ یہ اس تقریر کا بڑا اعلان تھا۔ اور اس کا مطلب یہ تھا کہ سیاسی لحاظ سے اسے جمہوریت بننا تھا۔
ہوان کارلوس کو نازک توازن برقرار رکھنا تھا۔ اور انہوں نے اسی طرح سے مروجہ سیاسی سٹرکچر گرانا شروع کر دیے۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ تمام ہسپانویوں کے بادشاہ ہوں گے۔ اور انہیں معلوم تھا کہ سپین کو اکٹھا کرنے میں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔ ان کا پہلے اقدامات میں کاتالونیا اور گلیکیا کے علاقوں کے دورے تھے جہاں یہ مسئلہ زیادہ تھا۔ ان جگہوں پر انہوں نے ان علاقوں کی انفرادیت کو تسلیم کیا۔ گلیکیا زندہ باد (Viva Galicia) کا نعرہ نئے دور کی نوید تھا۔
سیاسی جماعتیں واپس آ گئیں۔ میڈیا پر پابندیاں نرم ہو گئیں۔ پرانے لوگوں نے اصلاحات کو روکنے کی کوششیں کیں۔ یہ خطرہ رہا کہ کسی بھی وقت فوج واپس نظام کو لپیٹ کر عنان اقتدار نہ سنبھال لے۔ لیکن بادشاہ نے اپنا کام جاری رکھا۔ 1976 میں ملک میں ریفرنڈم ہوا۔ 97.4 فیصد ووٹ اس حق میں آئے کہ ملک پارلیمانی بادشاہت بن جائے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو قانونی قرار دے دیا گیا جس میں کمیونسٹ پارٹی بھی تھی جس کو فرانکو نے سب سے سختی سے ختم کیا تھا۔
ملک میں 41 سال کے وقفے کے بعد 1977 میں انتخابات ہوئے۔ دائیں بازو کی جماعت نے 350 میں سے 165 نشستیں لے کر حکومت بنا لی۔ سوشل ڈیموکریٹ کی 118 جبکہ کمیونسٹ پارٹی کی 20 نشستیں رہیں۔ سب سے خراب کارکردگی فرانکو پسند پارٹی کی تھی جو صرف 16 سیٹیں لے سکی۔
سپین نے فرانکو ازم کو ووٹ کے ذریعے واضح شکست دے دی تھی۔ لیکن اس نے مرنے سے انکار کر دیا۔ 1981 میں لیفٹنٹ کرنل انتونیو تجیرو 200 سول گارڈ کے ممبران کے ساتھ پارلیمان میں داخل ہوئے۔ مقصد حکومت الٹانا تھا۔ نائب وزیرِاعظم سے گتھم گتھا ہو گئے اور انہیں زمین پر گرا دیا۔ انہوں نے اور ساتھ آنے والے سپاہیوں نے ہوا میں گولیاں چلائیں۔ تجیرو نے اپنی سب مشین گن کو وزیراعظم پر تان لیا۔ یہ سب ٹی وی پر براہِ راست نشر ہو رہا تھا۔
رات ایک بجے بادشاہ ہوان کارلوس ٹی وی پر آئے۔ انہوں نے فوجی وردی پہنی ہوئی تھی اور اعلان کیا کہ “سپین کی بادشاہت قوم کی وحدت کی علامت ہے اور یہ کسی بھی صورت میں جمہوری عمل میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کر سکتی”۔
باغی ناکام ہو چکے تھے۔ تجیرو کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ انہیں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تیس سال کے لئے جیل بھیج دیا گیا۔ سپین میں جمہوریت نے اس دوران میں جڑیں پکڑیں۔
۔۔۔۔۔۔
سپین نے 1982 میں ناٹو میں شمولیت اختیار کی۔ یورپی یونین کا ممبر 1986 میں بنا جبکہ یورو کو 1999 میں اپنا لیا۔ نیا آئین آیا جس میں ملک کو سترہ انتظامی اکائیوں میں تقسیم کیا گیا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ تاریخ اور جغرافیہ کے پرانے تناؤ برقرار رہے۔ گلیکیا، کاتالونیا، باسک اور کسی حد تک اندلسیا میں یہ باقی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
آمریت میں علاقائی اختلافات کا حل اختلاف کرنے والے کو کچل دینے کا تھا۔ جمہوریت میں یہ زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہے۔ اس میں یورپی یونین کی رکنیت نے اہم کردار ادا کیا۔ یہ ایک نکتہ تھا جس پر سب متفق تھے۔ گاسے لکھتے ہیں کہ “سپین ایک مسئلہ تھا اور یورپ اس کا حل تھا”۔
یورپی یونین میں داخلے سے معاشی فوائد بھی ملے اور گورننس کو ٹھیک رکنے کی نگرانی بھی۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں