باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 16 دسمبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (76) ۔ سپین ۔ جنرل فرانکو

 


جنرل فرانکو فاشسٹ صدر تھے جنہوں نے خانہ جنگی میں فتح کے بعد اقتدار سنبھالا تھا اور مخالفین کو کچل دیا تھا۔ انہوں نے اپنی شخصیت کا کلٹ بنایا۔ اور اپنا لقب الکاڈیلو (عظیم قائد) رکھا۔ ملک میں نئے قوانین آئے۔
خواتین کے یونیورسٹیوں میں پڑھانے یا جج بننے پر پابندی لگا دی گئی۔ ان کا گواہی دینا بھی ممنوع قرار پایا۔ باسک اور کاتالان سمیت علاقائی شناخت ممنوع قرار پائی۔ اب سب صرف اور صرف سپینش تھے۔ علاقائی زبانوں پر پابندی لگا دی گئی۔ “سپین سے ہو تو سپینش زبان بولو” کا سرکاری نعرہ سامنے آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرانکو کی حکومت 1975 تک رہی۔ اپنے پیشروؤں کی طرح وہ متحد اور یکجا سپین دیکھنا چاہتے تھے لیکن جغرافیے نے انہیں جیتنے نہیں دیا۔ علاقائی زبانیں اور شناختیں ختم نہیں ہو سکیں۔
کاتالان کے روایتی رقص سردانا کو بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ اس میں لوگ دائرہ بنا کر اور ہاتھ پکڑ کر رقص کرتے ہیں۔ یہ رقص مزاحمت کی علامت بنا۔
فٹبال سپین کا اہم حصہ ہے۔ بارسلونا فٹ بال کلب اور ایتھلیٹک بلباؤ کلب کے شائقین کے نعرے علاقائی زبانوں میں بنائے گئے جو کہ مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تھے۔ یہ اب تک استعمال کئے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرائع ابلاغ پر مضبوط سرکاری کنٹرول رہا۔ فرانکو نے معیشت میں اوٹارکی کی اصطلاح متعارف کروائی تھی جس کے معنی خودانحصاری کے تھے۔ ریاست کا اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول تھا۔ دوسرے ممالک سے تجارت محدود تھی۔ ان پالیسیوں کے اثرات تباہ کن رہے۔ 1940 کی دہائی کو “بھوک کے سال” کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے باوجود حکومت کے پاس اتنے پیسے  (اور جبری مشقت کے لئے مزدور) تھے کہ فرانس کی سرحد پر ہزاروں بنکر بنائے گئے۔ اس کو پیرینی لائن کہا جاتا ہے۔ یہ ضروری اس لئے تھے کہ ملک میں حملہ آوروں کیلئے یہ راستہ تھا۔ ابھی بھی یہ بنکر موجود ہیں۔ اگرچہ ان میں اب جھاڑیاں اگی ہیں اور انہیں ترک کیا جا چکا ہے لیکن یہ فرانکو کے سالوں کی خودساختہ تنہائی کی علامت ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرانکو نے جو دوست بنائے تھے، وہ مسولینی اور ایڈولف ہٹ۔۔۔لر تھے۔ اور اس وجہ سے دوسری جنگِ عظیم کے بعد سپین ناپسندیدہ ملک رہا۔ نہ ہی اقوامِ متحدہ میں جگہ ملی، نہ مارشل پلان میں اور نہ ہی ناٹو میں۔
فرانکو لگے رہے۔ سرد جنگ ان کے فائدہ میں رہی۔ یورپ میں نیا خطرہ فاشزم نہیں بلکہ کمیونزم تھا۔ اور سپین اس کا مقابلہ کرنے کیلئے اہم ملک تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپین مغربی یورپ میں سٹریٹیجک گہرائی دیتا تھا۔ امریکہ کی جنگی منصوبہ بندی کی کمیٹی کی 1947 کی سٹڈی کے مطابق سوویت اگر مغربی یورپ پر حملہ کریں تو تین ماہ میں پیرینی کے پہاڑوں تک پہنچ سکتے تھے۔ اس سے چالیس روز بعد جبرالٹر تک۔ اور اس وجہ سے یہاں پر اڈے بنانے کیلئے مذاکرات شروع ہو گئے۔ اس میں کچھ برس لگے لیکن 1951 مین امریکی صدر ٹرومین نے اعلان کیا کہ وہ سپین کے بارے میں پالیسی بدل رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “میں فرانکو کو پسند نہیں کرتا اور کبھی نہیں کروں گا۔ لیکن میں اپنے جذبات کو دفاعی ضروریات پر ترجیح نہیں دوں گا”۔
اس سے دو سال بعد میڈرڈ کا معاہدہ ہو گیا۔ اس میں امریکہ کی آرمی، نیوی اور ائیرفورس سپین پہنچ گئے۔ اس کے بدلے اگلے بیس سال میں دو ارب ڈالر کی دفاعی اور معاشی امداد ملی۔ فرانس اس معاہدے کے مخالف تھا۔ فرانس کا کہنا تھا کہ جمہوری یورپ کا دفاع فاشسٹ سپین کی مدد سے نہیں کیا جانا چاہیے۔
آئزن ہاور وہ پہلے امریکی صدر تھے جو سپین کے دورے پر 1959 میں گئے۔ یہ دورہ سپین کے ان لوگوں کے لئے دھچکا تھا جو سپین میں جمہوریت کے خواہشمند تھے۔
لیکن اس دورے کے نتیجے میں سپین میں زندگی آسان ہو گئی۔ تجارتی پابندیاں اٹھا لی گئیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت مل گئی۔ خودکفالت کی پالیسی سپین نے خاموشی سے ترک کر دی۔ 1960 کی دہائی سپین میں تیررفتار ترقی کی تھی۔ واشنگ مشینیں اور ٹیلی ویژن گھروں تک پہنچنے لگے۔ یہ باقی مغربی یورپ کی طرح بننے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرانکو کی صحت گر رہی تھی۔ 1969 میں ان کی عمر 76 سال تھی اور انہوں نے اگلا سربراہ مملکت اور بادشاہ پرنس  ہوان کارلوس کو نامزد کیا۔ فرانکو کا خیال تھا کہ کارلوس کٹھ پتلی ہوں گے۔ عوام کا خیال تھا کہ کارلوس کی وجہ سے کوئی تبدیل نہیں آئے گی۔ کارلوس نے سب کو غلط ثابت کر دیا۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں